تاریخ انسانی میں کم و بیش بتیس اقوام یاتہذیبوں کاذکرملتاہے جو غلامی کی اندھیری غارمیں دھکیلی گئیں اور پھرہمیشہ کے لیے کرہ ارض کے سینے سے انتقال کرکے تاریخ کے صحیفوں میں دفن ہو گئیں۔امت مسلمہ پر بھی تقریباََتین سوسالوں تک غلامی کے مہیب سائے لہراتے رہے اوراس دوران بدترین حالات بھی دیکھنے میں آئے،خاص طورپر امت کا فکری اغوااورایک ذہنی غلام طبقے کی پیدائش اورآج تک اس کاوجود امت کے لیے کسی المیے اورسانحے سے کم نہیں ہے۔اس مفلوج و معذور غلامانہ ذہن کی متفوقانہ موجودگی میں کسی تخلیقی کارکردگی وفقاہی کارگزاری سے محرومی امت مسلمہ کی وہ آزمائش ہے جس کے نتیجے میں ذہنی و نظریاتی پسماندگی اورعلمی و تعلیمی وتحقیقی زوال کے تسلسل میں ہنوز اضافہ ہی ہورہاہے۔اس مذکورہ تصویرکے تاریک رخ کے دوسری جانب روشن و تابناک پہلو یہ بھی ہے کہ دورغلامی میں بھی امت کی کوکھ سرسبزوشاداب رہی اوراعلی درجے کی قائدانہ صلاحیتوں کے حامل لوگ اس امت میں جنم لیتے رہے۔اس گرانقدرطبقے میں نابغہ روزگار نفوس قدسیہ نے امت کے سواد اعظم کا قبلہ درست رکھنے کا کوہ گراں جیسا فریضہ بڑی کامیابی سے سرانجام دیا۔گزشتہ صدی کے نصف تک امت پر سے غلامی کی زنجیروں میں آنے والے رخنے اسی طبقے کی جدوجہد کا ثمرہ تھے۔جناب اکبرالہ آبادی انہیں لوگوں میں سے ہیں جو دورغلامی میں پیداہونے کے باوجود غلامی سے مبرا و بلندترتھے اور ایام آزادی کا سہرا بجاطورپر ان کے سرپر سجنے کامستحق وسزاوارہے۔
جناب اکبرالہ آبادی(1846-1921) کااصل نام ”سیداکبرحسین رضوی“تھااوربحیثیت شاعر آپ ”اکبر“ہی تخلص کرتے تھے۔16نومبر1846ء آپ کایوم پیدائش ہے اور یہ یوپی کے ضلع الہ آباد جیسے مشہور علاقے کاایک چھوٹاسا ”بار“نامی قصبہ ہے۔ابتدائی تعلیم حسب رواج گھرمیں ہی اپنے والد محترم جناب سید تفضل حسین رضوی (نائب تحصیلدار)سے حاصل کی البتہ کچھ عرصہ کے لیے مولوی محمدفاوق کے سامنے بھی زانوئے تلمذتہ کیا۔مشن سکول الہ آباد نامی سرکاری تعلیمی ادارے سے تکمیل تعلیم کے بعد محکمہ تعمیرات میں ملازمت اختیارکی۔کچھ مدت ایسٹ انڈیا ریلوے میں بھی ملازم رہے لیکن 1869ء میں اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کارلاتے ہوئے ”مختاری“نای مقابلے کے مروجہ امتحان میں کامیابی کے بعدنائب تحصیلداربھرتی ہوگئے۔ بہترین کی کارکردگی کی بنیادپرایک ہی سال بعد1870میں آپ کو ہائی کورٹ میں مسل خوانی کے اعلی ترمقام پر ترقی مل گئی۔عام آدمی ہوتے توکامیابیوں کی یہی سیڑھیاں شادیانے بجانے کے لیے کافی تھیں،کیونکہ اس زمانے میں کسی مسلمان نوجوان کاایسے مراتب تک پہنچ جانا کسی جوئے شیرسے کم نہ تھا۔لیکن جناب اکبرالہ آبادی نے اسی پر اکتفانہ کیااور 1872ء میں وکالت کے امتحان میں کامیابی کے بعد 1880ء تک وکالت کرتے رہے یہاں تک کہ آپ کو اسی سال منصف بناکرمیزان قضا تفویض کردیاگیا،اس وقت کی اصطلاحات کے مطابق یہ ”عدالت خفیفہ“یعنی چھوٹی عدالت جسے آج کل غالباََ سول کورٹ کہتے ہیں، کہاجاتاتھا۔1898میں سرکارکی جانب سے ”خان بہادر“اورمخزن لاہور کی طرف سے ”لسان العصر“کے خطابات سے نوازاگیااور1903ء میں خرابی صحت کی بناپر قبل از وقت ملازمت کو خیرآبادکہ دیا۔1857ء کی جنگ آزادی،پہلی عالمی جنگ عظیم اورموہن داس مہاتماگاندھی کی امن تحریک کے ابتدائی ایام جیسے تین اہم ترین عالمی و مقامی تاریخی واقعات براہ راست آپ کے مشاہدے میں آئے تھے۔آپ نے دوشادیاں کیں، آپ کے فرزندسیدعشرت حسین رضوی کوبھی ایک زمانہ جانتاہے۔
اکبرالہ آباد کی وجہ شہرت ان کی ظرافت آمیز اور طنزیہ بامقصد شاعری ہے۔اردو دانی آپ کو وراثت اورماحول سے براہ راست ملی تھی کیونکہ اردوکی جنم بھونی میں ہی آپ نے پرورش پائی تھی۔آپ کاعہد دورعروج اور دورغلامی کے عین درمیان میں واقع ہواتھا کہ قدرت نے آپ کو ایک کی باقیات اوردوسرے کی شروعات کابلاواسطہ مشاہدہ کرایاتھا۔دورعروج کا تربیت یافتہ معاشرہ آپ نے بنظرغائردیکھا،یہ وہ معاشرہ تھا جس نے اپنے سابق حکمران مغلیہ خاندان سے وراثت میں اعلی علمی و ادبی ذوق،شعائرآزادی اور ملی شعور پایاتھا۔انگریز نے مغلیہ دور کے اس خام مال کو اپنے استعمال میں لا کر بہترین نظام چلاکر دکھایا۔اسے اپنے خلف رو حکمرانوں سے دیانت دار عملہ،انسانی حقوق کاپاسداراور لسانی تعصب سے پاک ماحول،شاندارمذہبی رواداری سے آراستہ ملک، اپنے فن میں ماہر افرادکاراورحفظ مراتب میں اپنے سے بڑوں کے فرمانبردار،اطاعت شعاراور تابع فرمان ملازمین میسر آئے۔جناب اکبرالہ آبادی نے یہ سب اپنی آنکھوں سے بنظرعمیق دیکھاکیا۔بدیسی حکمران نے بڑی چابکدستی سے ہندوستانی معاشرے کے ان خصائص عالیہ کوبتدریج بدترین لعائین غلامی میں بدل دیا۔گورے سامراج نے انگریزی ذریعہ تعلیم،سیکولر جمہوری سیاسی نظام،غدارپرورجاگیردارانہ ذہنیت اورلڑاو اور حکومت کروکے فارمولوں کی بنیادپردورعروج کی اعلی روایات کو غلامی کے قبیح وملعون رویوں میں بدل دیااور اپنے پیچھے ایک بگڑاہوا،متعصب،اخلاقی گراوٹ کی انتہاپر پہنچاہوا،فکری طورپر بانجھ،مذہبی انتہاپسندی سے بھراہوا،قتل و غارت گری، بدامنی اورصدی کی سب سے بڑی ہجرت اور مہاجرین پر شب خون کے ذریعے لوٹ مار،انسانیت سے عاری اور خواتین کی آبروریزی اور محرمات کی بے حرمتی کرنے والا اورمعاشی آکاس بیل کاحامل نظام زندگی چھوڑ گیااورفساد کے ایسے بیج بو گیا کہ نسلیں آج تک اس آتش انگریزکاایندھن بن رہی ہیں۔جناب اکبر الہ آبادی نے بدترین حالات کی یہ نہج اپنی فراست سے اسی وقت محسوس کر لی تھی اور انہوں نے اپنے شاعرانہ کلام میں کھل کر اس کااظہارکیاہے۔
جناب اکبرالہ آبادی کا کمال فن تھاکہ انہوں نے اتنی تکلیف دہ حقائق کوبڑے دلچسپ اور ہلکے پھلکے انداز سے پیش کیا۔وہ سرکاری ملازم تھے اورانہیں یہ خوف بھی لاحق ہو سکتاتھاکہ براہ راست تنقیدوتنقیص کے باعث ان کا ولایتی آقا انہیں ذریعہ روزگار سے محروم کر سکتاہے بلکہ اس پر مستزاد یہ کہ انہیں پس دیوار زنداں بھی دھکیلاجاسکتاتھا،اور 1857ء کی جنگ آزادی میں وہ یہ سب سفاک مظالم دیکھ بھی چکے تھے۔لیکن ان کی فہم و فراست ہی نہیں ان کی جرات وشجاعت کو بھی سلام ہے کہ انہوں نے اپنی ملی و قومی ذمہ داریاں بدرجہ اتم نبھائیں اور افرادقوم تک اپنی فکرودانست کو بڑے مزاحیہ انداز سے منتقل کیا۔حقیقت یہ ہے ان کے ان مزاحیہ اور ہلکے پھلکے ا سلوب پر صدہزارسنجیدہ اسالیب قربان کیے جاسکتے ہیں۔ان کے عہد میں لسانی ادب بے پناہ تکلفات کاشکارہو چکاتھااورآسان و سہل مدعاوجذبات و احساسات ومناظرکو مشکل تراکیب واستعارارت میں ڈھالنا معراج فن گردانا جاتاتھا،آپ کے عہد کے بعد تک بھی اکثر شعرانے اس تکلف برداراندازسخن کی تسکین کے لیے اردو سے نکل کرفارسی زبان کا سہارا بھی لیا۔لیکن جناب اکبرالہ آبادی کا مقصد شعرو سخن چونکہ بیداری وآزادی ملت تھی اس لیے ان کے کلام میں تکلفات نام کو بھی نہیں ملتے اور اتنی سادہ،اتنی آسان فہم اور اتنی دلآویزاشعارہیں کہ بچوں سے بڑوں تک سب کاشوق مطالعہ اور لذت سماع ختم ہی نہ ہو۔اگرچہ آج ایک صدی بیتنے کو ہے لیکن سچ ہے کہ ان کاکلام آج کے حالات پر بھی صادق آتاہے کیونکہ اسلام نے صرف فرد کی حدتک غلام بنانے کی اجازت دی تھی لیکن اس سیکولرازم نے قوموں کو غلام بنایااور اسلام نے غلاموں کو بھی اتنی فکری آزادی دی کہ یہ صرف امت مسلمہ کا طرہ امتیاز ہے کہ آزادانہ اسلامی سیاسی نظام کے باعث غلاموں کے خاندان بھی مسنداقتدارپر براجمان رہے۔ لیکن تف ہے اس دورغلامی پرکہ اس کمپنی کی حکومت نے ذہنی غلامی کی بدعت کو جنم دیا اور نام نہاداعلی تعلیم یافتہ ومراعات یافتہ طبقات اعلی درجے کے بدترین وفادار غلا م ثابت ہوئے اوراس تہذیبی،تعلیمی،ثقافتی،دفاعی،سیاسی ومعاشرتی غلامی میں مبتلاء اورحتی کہ بیت الخلاء اور کمرہ استراحت وغرفہ طعام تک میں مغربی تہذیب کی کھینچی ہوئی غلامانہ لکیرکے بدترین فقیر اور عقل کے اندھے غلام بھی اپنے آپ کو آزادخیال،جدت پسند،ترقی پسنداورروشن خیال تصورکرتے ہیں جن کے جسمانی لباس اور زبانی لہجے آج بھی غلامانہ طریق گندگی و غلاظت سے آلودہ ہیں اوران کی بدبودارسڑاندسے پورا معاشرہ غلامی کے اذیت ناک و انتہائی تکلیف دہ مرض میں مبتلاہورہاہے۔
اکبرالہ آبادی کو صرف شاعری،ادب اور اسلوب نگارش کی عینک سے دیکھنے والے ان کے ساتھ شایدانصاف نہ کرپائیں۔اکبرالہ آبادی ایک شخصیت نہیں ایک کردارکانام ہے اور یہ مصلح کردار ہردورمیں نوجوانان ملت اسلامیہ کے ہمرکاب رہاہے،انہیں دوست اوردشمن میں تمیزسکھاتارہاہے،انہیں اپنے اور غیر میں فرق سمجھاتارہاہے اورانہیں دشمن کے خوبصورت نعروں اوروعدوں میں چھپے ہوئے شکاری کے جال میں حقیقت احوال بتاتارہاہے۔تحریک آزادی پاکستان کے تناور اورناقابل تسخیرقلعے کی بنیادوں میں اکبرالہ آبادی کی فکر کا مضبوط مصالحہ لگاہے اور وطن عزیزکے تناوردرخت کی جڑوں میں آبیاری کافریضہ مغربی تہذیب کے خلاف شعوراجاگرکرنے والے اکبرالہ آبادی جیسے کرداروں نے کیاہے۔یہ کردارآج بھی زندہ ہیں اور آئندہ بھی زندہ رہیں گے اورانہیں کی کاوش و سعی جمیلہ سے غلامی کی باقیات السیات سے بہت جلد ملت اسلامیہ پاک ہونے کو ہے اور حقیقی آزادی کاسورج بس پس دیوار فرداطلوع ہونے کو ہے اور وہ وقت اب آن پہنچاہے کہ ملت اسلامیہ سمیت کل انسانیت فاران کی چوٹیوں سے بلند ہونے والے مینارہ نور کے نیچے پرامن پناہ حاصل کر پائے گی،ان شااللہ تعالی۔
*****
ڈاکٹر ساجد خاکوانی(قلم کاروان،اسلام آباد(
[email protected]
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...