نصرانیوں اور یہود و ہنود کا برا ہو جو ہم مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ ہمارے تین تین چار چار سال کے معصوم بچے سمگل ہو کر جس ملک میں جاتے ہیں وہ جغرافیائی لحاظ سے بھی ہمارے نزدیک ہے اور روحانی حوالے سے بھی دور نہیں۔ امت مسلمہ کے افراد جہاں بھی ہوں‘ انکے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم بے چین ہوتا ہے۔ یہی حال امت کا بھی ہے۔ یہی تو وہ اتحاد ہے جس سے نصرانی اور یہود و ہنود لرزاں اور ترساں ہیں!
مغربی تہذیب تباہی و بربادی سے دوچار ہو اور ہماری آنکھیں اور جگہ ٹھنڈی ہو‘ یہ تین تین چار چار سال کے معصوم بچے وہاں پہنچتے ہیں تو ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے ہیں۔ انہیں ایک عظیم مقصد کیلئے درآمد کیا جاتا ہے۔ یہ مقصد اتنا عظیم الشان ہے کہ اہل مغرب… خدا انہیں نیست و نابود کرے۔ اس کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ اسی مقصد سے وابستہ ہے۔ اہل پاکستان قسمت کے دھنی ہیں کہ انکے تین تین چار چار سال کے معصوم لخت ہائے جگر تاریخ کا دھارا بدلنے میں ایک ناقابل فراموش کردار ادا کر رہے ہیں…ع
یہ نصیب! اللہ اکبر! لوٹنے کی جائے ہے
ان بچوں کو صحرا میں‘ آبادیوں سے دور رکھا جاتا ہے۔ انہیں کم خوراک دی جاتی ہے تاکہ ان کا وزن زیادہ نہ ہو کیوں؟ یہ ہم تھوڑی دیر بعد بتائیں گے۔ انکی نگرانی پر ایسے بدُّو مامور کئے جاتے ہیں جن کا نرمی‘ شفقت‘ رحم دلی اور اس قسم کے دوسرے اسمائے صفت سے دور کا تعلق بھی نہیں۔ یوں بھی صحرا کی بے کنار اندھی وسعتوں میں جہاں سینکڑوں فرسنگ تک ریت کے ٹیلے موت کی منڈیروں کی طرح زندگی کا راستہ روکے ہوئے ہوں‘ وہاں ایک بچہ اصطبل سے بھاگ بھی جائے تو کتنا دور جا سکے گا؟
امریکہ کے ڈرون جہازوں میں کیڑے پڑیں کہ علم جو مومن کی میراث تھا‘ امریکہ نے اچک لیا ورنہ ڈرون جہاز ہم بھی بنا سکتے تھے) وہ دیکھئے‘ کیا منظر ہے۔ صحرا کے ایک بڑے ٹکڑے پر شامیانے تنے ہیں۔ ایک طرف صوفے لگے ہیں جن پر شہزادے تشریف فرما ہیں۔ خدا انہیں ہر قسم کے مصائب و آلام سے محفوظ رکھے۔
خدام قطار اندر قطار کھڑے ہیں۔ دنیا کا کوئی مشروب‘ کوئی کھانا ایسا نہیں جو یہاں پیش نہیں کیا جا رہا۔ وہ دیکھئے‘ فوٹو گرافروں کے ہجوم کھڑے ہیں۔ یقیناً کچھ ہونے والا ہے۔
یہ تو چیخیں سنائی دی جانے لگی ہیں! دہشت زدہ چیخیں‘ خوف کے مارے چیخ رہے ہیں؟ کون؟ وہی معصوم بچے! وہ دیکھئے‘ اونٹ بھاگتے آ رہے ہیں‘ انتہائی تیزی سے بھاگتے اونٹ! ہر اونٹ پر تین یا چار سال کا بچہ رسیوں سے بندھا ہے۔ وہ خوف کے مارے چیخ رہا ہے۔ اسکے ہاتھ میں کوڑا ہے۔ اس سے سبق تو یہ دیا گیا ہے کہ بھاگتے اونٹ پر کوڑے برسائے لیکن اسکے تو حواس ہی گم ہو گئے ہیں۔
اسے کوڑے برسانے کا ہوش ہی کہاں ہے۔ وہ تو خوف کے مارے چیخ رہا ہے۔ یہ چیخ اونٹ کیلئے کوڑے کا کام دیتی ہے۔ چیخیں سن کر اونٹ بھی سمجھتا ہے کہ میں کسی مصیبت میں گرفتار ہوں اور یہ آواز کیسی ہے۔ وہ اور تیزی سے بھاگتا ہے۔ ان بچوں کو اس لئے خوراک کم دی جاتی ہے کہ ان کا وزن نہ بڑھے۔ بچہ بھاری ہو تو اونٹ تیز نہیں دوڑ سکتا۔ شہزادے خوشی سے تالیاں بجاتے ہیں۔ ہا …ہا کرتے ہیں ہنستے ہیں۔ انکے سینوں میں ’’نرمی‘‘ اور ’’شفقت‘‘ کے جذبات شدت سے ابل رہے ہیں۔ وہ دیکھئے‘ ایک معصوم بچہ بھاگتے اونٹ سے گر پڑا ہے۔ پیچھے آنیوالے اونٹوں نے اسے اپنے مہیب پیروں تلے کچل ڈالا ہے۔ لیکن تماشائیوں کی تالیوں پر اور ہا …ہا… ہا کی آوازوں پر اس دلدوز حادثے کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ کھیل جاری ہے۔ جشن مسلسل ہو رہا ہے۔
کچلے جانے والے بچے کے ماں با پ جنوبی پنجاب میں ہیں وہی جنوبی پنجاب جس سے عالی مرتبت وزیراعظم کا تعلق ہے۔ وہی جنوبی پنجاب جہاں قابل احترام وزیرخارجہ‘ روایتی دستار پہنے‘ چند دن پہلے مزار پر چادر چڑھا رہے تھے‘ اس لئے کہ وہ گدی نشین بھی ہیں۔ وہی جنوبی پنجاب جہاں اولیا ء محو خواب ہیں۔ وہی اولیا ء جنہوں نے محبت کا سبق پڑھایا‘ شفقت اور رحم کا درس دیا!
اسلامی مملکت سے یہ معصوم بچے‘ ایک اور اسلامی ملک میں عرصہ سے جا رہے ہیں۔ کبھی سمگل ہو کر‘ کبھی فروخت ہو کر‘ کبھی کرائے پر‘ کبھی معاوضے پر‘ کبھی چوری ہو کر‘ کبھی غریب بدبخت والدین کی مرضی سے‘ آہ! ایسی مرضی جس میں غربت کا جبر شامل ہے۔ وڈیروں ‘ مخدوموں‘ کھرب پتی گدی نشینوں کی سرزمین… جنوبی پنجاب… میں بے بس بے کس والدین بھوک کے عفریت سے بچنے کیلئے موت کی پھنکار سے ڈرتے ہوئے اپنے جگر کے ٹکڑے سرحد پار… دور بہت دور… اس اسلامی ملک میں بھیج دیتے ہیں۔ جہاں اونٹوں کی دوڑ کا ’’مہذب‘‘ کھیل کھیلا جاتا ہے۔
آپ پریشان نہ ہوں‘ اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھ ڈالئے‘ اس ’’مہذب‘‘ کھیل میں وہاں کی حکومت اور شہزادے سب شامل ہیں۔ یہی تو وہ کھیل ہے جس پر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا دار و مدار ہے‘ اگر اہل مغرب کے پاس ہارورڈ‘ آکسفورڈ اور کیمبرج کی یونیورسٹیاں ہیں تو ہمارے پاس ایسے کھیل ہیں۔ ہم ان سے کم تو نہیں! اگر ان کے پاس سائنس اور ٹیکنالوجی ہے تو ہمارے پاس بچوں کی چیخوں سے اونٹوں کو تیز دوڑانے کا فن ہے۔ غلط ہیں وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ گذشتہ پانچ سو سال کے دوران عالم اسلام نے کوئی ایجاد‘ کوئی دریافت نہیں کی ہم نے اس ’’مہذب‘‘ کھیل کو ساری دنیا میں اپنے اوپر ہنسنے کا سامان بنا کر پیش کیا ہے۔
رہے اہل مغرب… تو ہمارے نوکر اور ہمارے منشی ہیں۔ ہمیں دل کا دورہ پڑے تو ہم راچسٹر یا ہیوسٹن جا کر آپریشن کروا آتے ہیں۔ ہمیں دبئی کی کارپوریشنیں کمپنیاں چلانی ہوں تو ہم تعلیم یافتہ گورے بھرتی کر لیتے ہیں۔ آپ کبھی امریکہ یا یورپ سے جہاز پر بیٹھیں‘ پورا جہاز‘ گوری چمڑی والوں سے بھرا ہو گا۔ جب یہ جہاز کویت‘ بحرین‘ مسقط یا ابوظہبی اترے گا تو یہ گورے بھی اتر پڑیں گے‘ آخر انہوں نے ہی تو ساری کمپنیاں سارے دفاتر سارا کام سنبھالا ہوا ہے!
لیکن اصل بات جو میں بتانا چاہتا ہوں وہ تو اور ہے۔ مندرجہ ذیل خبر پڑھئے…
’’ یو اے ای کی حکومت نے اپنے ملک میں اونٹ دوڑ میں استعمال۔۔ ہونے والے کم سن پاکستانی بچوں کی تلافی کی خاطر حکومت پاکستان کو چودہ لاکھ ڈالر دیئے۔ یہ بات جمعہ کو وزیرداخلہ نے پاکستان میں تعینات اس ملک کے سفیر کیساتھ ملاقات کے بعد میڈیا کو بتائی۔
وزیر داخلہ نے اسی ملک کے صدر اور وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ انکے اس اقدام سے پاکستان کے غریب عوام کی جن کے بچے اونٹ دوڑ میں’’استعمال‘‘ ہوئے دلجوئی ہو گی اور اچھے جذبات پیدا ہوں گے‘‘۔
آئیے! ہم جشن منائیں کیونکہ ہم اتنے ’’غیرت مند‘‘ ہو گئے ہیں کہ بچے بھی ہمارے ’’استعمال‘‘ ہو رہے ہیں اور شکریہ بھی ہم ادا کر رہے ہیں۔
’’اچھے جذبات ‘‘ پیدا کرنے میں اگر ہمارے معصوم بچے ’’کام‘‘ آ گئے تو گھاٹے کا سودا نہیں۔ یوں بھی ہم ابھی عراق افغانستان‘ چیچنیا اور فلسطین کیلئے پریشان ہیں۔ وہاں سے فارغ ہوئے تو اپنے بچوں کیلئے بھی پریشان ہولیں گے!