محسن انسانیت ﷺنے فرمایا کہ ”ایمان کی ساٹھ سے زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے“۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓفرماتے ہیں ایک موقع پر محسن انسانیت ﷺ ایک انصاری مسلمان کے پاس سے گزرے جواپنے بھائی کو بہت زیادہ شرم و حیا کے بارے میں نصیحت کررہاتھاتب آپ ﷺ نے فرمایا کہ”اسے اس کے حال پر چھوڑ دو کیونکہ حیادراصل ایمان کاایک حصہ ہے“۔ایک اور صحابی عمران بن حصین ؓنے بتایاکہ ایک موقع پر محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا کہ ”شرم و حیا صرف بھلائی کاباعث بنتی ہے“۔محسن انسانیت ﷺنے دوسرے ادیان کاذکرتے ہوئے فرمایا کہ ہر دین کی ایک پہچان ہوتی ہے اور ہمارے دین کی جداگانہ پہچان ”شرم وحیا“ہے۔ایک بار محسن انسانیت ﷺ نے حیا کی غیرموجودگی کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ”جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرتارہ“۔اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ کسی بھی برے کام سے روکنے کا جوواحد سبب ہے وہ شرم و حیاہے اور جب کسی میں شرم کافقدان ہو جائے اور حیاباقی نہ رہے تو اب اس کا جو جی چاہے گا وہی کرے گااورجب انسان اپنی مرضی کا غلام بن جاتاہے تو تباہی اس کا یقینی انجام بن جاتی ہے،اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے محسن انسانیت ﷺنے فرمایا کہ”جب اللہ تعالی کسی بندے کو ہلاک کرنا چاہے تواس سے شرم و حیا چھین لیتاہے“۔
ایک طویل حدیث مبارکہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓروایت کرتے ہیں کہ ایک موقع پر محسن انسانیت ﷺنے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ”اللہ تعالی سے ایسی حیا کرو جیسی کہ اس سے کرنی چاہیے،لوگوں نے عرض کیاکہ الحمدللہ ہم اللہ تعالی سے حیاکرتے ہیں،محسن انسانیت ﷺنے فرمایا نہیں،حیاکامفہوم اتنا محدود نہیں جتنا تم سمجھ رہے ہو بلکہ اللہ تعالی سے حیاکرنے کا حق یہ ہے کہ سراورسر میں جو افکاروخیالات ہیں ان سب کی نگرانی کرو اور پیٹ کی اور جو کچھ پیٹ میں بھراہے اس سب کی نگرانی کرو،اور موت کواورموت کے بعد جوکچھ ہونے والا ہے اس کو یاد کرو،پس جس نے ایسا کیا سمجھو اس نے اللہ تعالی سے حیاکرنے کاحق ادا کر دیا“۔اس حدیث مبارکہ میں فکرو عمل سے موت و حیات تک کے تمام امور میں حیاکادرس دیا گیا ہے۔حقیقت یہی ہے کہ حیاکی سب سے زیادہ حق دار اللہ تعالی کی ذات ہے،اور چونکہ اللہ تعالی سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے اس لیے کھلے چھپے ہرحال میں اللہ تعالی سے حیاکی جائے اور اللہ تعالی سے حیاکا مطلب اللہ تعالی کاتقوی اختیارکیاجائے اور جلوت ہو یا خلوت برائیوں سے بچنا اور نیکیوں میں سبقت اختیار کرنا ہی تقوی ہے۔حضرت ابن حیدہ سے روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فرمایا”اپنی شرم گاہ محفوظ رکھو(کسی کے سامنے نہ کھولو)سوائے اپنی بیوی اور باندی کے،میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺکیا تنہائی میں بھی؟؟(شرم گاہ نہ کھولی جائے)محسن انسانیت ﷺنے جواباََارشاد فرمایا اللہ تعالی اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے شرم کی جائے“۔
حضرت ابو سعید خذری ؓبیان کرتے ہیں کہ محسن انسانیت ﷺکنواری پردہ نشین عورت سے بھی کہیں زیادہ حیادار تھے۔اسی لیے ہر قبیح قول وفعل اور اخلاق سے گری ہوئی ہر طرح کی حرکات و سکنات سے آپ کا دامن عفت و عصمت تاحیات پاک رہا۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓفرماتی ہیں کہ محسن انسانیت ﷺنہ فحش کلام تھے،نہ بیہودہ گوئی کرتے تھے اور نہ ہی بازاروں میں شور کیاکرتے تھے،برائی کابدلہ کبھی برائی سے نہ دیتے تھے بلکہ معاف فرما دیتے تھے یہاں تک کہ زوجہ محترمہ ہوتے ہوئے بھی بی بی پاک نے کبھی آپ ﷺکوبرہنہ نہ دیکھاتھا۔محسن انسانیت ﷺکے بچپن کے اوائل عمری میں جب آپ بہت چھوٹی عمر میں تھے اور اپنے چچاؤں کی گود میں کھیلا کرتے تھے تو ایک بار پاجامہ مبارک تھوڑاسا نیچے کو سرک گیا تو مارے حیا کے بے ہوش گئے تب پانی کے چھینٹوں سے ہوش دلایا گیا۔چنانچہ بعدازبعثت حضرت جرہد ابن خویلدسے روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فرمایا ”کیاتمہیں یہ معلوم نہیں کہ ران(بھی)ستر میں شامل ہے“۔حضرت علی کرم اللہ وجہ سے روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فرمایا ”اے علی اپنی ران نہ کھولو اور کسی زندہ یامردہ آدمی کی ران کی طرف نظر بھی نہ کرو“۔حضرت ابوسعید خزری فرماتے ہیں کہ محسن انسانیت ﷺکاارشاد مبارک ہے کہ ”مرد دوسرے مرد کے ستر کی طرف اور عورت دوسری عورت کے ستر کی طرف نگاہ نہ کرے“۔ عبداللہ بن عمر سے تو یہاں تک روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فرمایا”لوگو (تنہائی کی حالت میں بھی)برہنگی سے پرہیز کرو(یعنی ستر نہ کھولو)کیونکہ تمہارے ساتھ فرشتے ہروقت موجود ہوتے ہیں اور کسی بھی وقت جدا نہیں ہوتے لہذاان کی شرم کرو اور ان کا احترام کرو“۔چنانچہ فقہا لکھتے ہیں کہ سوائے قضائے حاجت اور وظیفہ زوجیت کے اپنا ستر کھولنا جائز نہیں اور بالکل الف ننگاہو کر غسل کرنا بھی خلاف سنت ہے پس دوران غسل بھی کسی کپڑے سے ستر یا ننگ کا ڈھکاہونا ضروری ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے مروی ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فرمایا ”عورت گویا ستر (چھپی ہوئی)ہے،جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیاطین اس کو تاکتے ہیں اور اپنی نظروں کا نشانہ بناتے ہیں“۔حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ مجھ تک یہ قول رسول ﷺ پہنچاہے کہ ”اللہ تعالی کی لعنت ہو دیکھنے والے پر اور جس کو دیکھاجائے“۔چنانچہ جب اچانک نظر پڑ جانے کے بارے میں دریافت کیاگیاتومحسن انسانیت ﷺنے فرمایا”ادھرسے اپنی نگاہ پھیر لو“۔حضرت بریدہؓفرماتے ہیں کہ محسن انسانیت ﷺنے حضرت علی کرم اللہ وجہ کونصیحت کرتے ہوئے فرما یا”اے علیؓ؛(اگرکسی نامحرم پر تمہاری نظر پڑ جائے تو)دوبارہ نظر نہ کرو،تمہارے لیے(بلاارادہ) پہلی نظر توجائز ہے مگردوسری نظر جائز نہیں“ ۔مولانا ابوالاعلی مودودی ؒاس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اچانک نظر کی گنجائش ہے لیکن”نظارہ“کی کوئی گنجائش نہیں۔حضرت ابو امامہ ؓنے رویات کیاہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فرمایا”جس مرد مومن کی کسی عورت کے حسن و جمال پر نظر پڑ جائے پھر وہ اپنی نگاہ نیچی کر لے تو اللہ تعالی اس کو ایسی عبادت نصیب فرمائے گا جس کی لذت و حلاوت اس مرد مومن کو محسوس ہو گی“۔امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب ؓسے روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فرمایا ”ایسا ہرگزنہیں ہو سکتاکہ کوئی (نامحرم)آدمی کسی عورت سے تنہائی میں ملے اور وہاں تیسرا شیطان موجود نہ ہو“۔ایک موقع پر حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں محسن انسانیت ﷺنے فرمایا ”تم (نامحرم)عورتوں کے پاس جانے سے بچو(اور اس معاملے میں بہت احتیاط کرو)“۔حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ محسن انسانیت ﷺنے نصیحت کرتے ہوئے ارشادفرمایا کہ ”تم ان عورتوں کے گھروں میں مت جایا کروجن کے شوہر باہر گئے ہوئے ہوں کیونکہ شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتاہے“۔
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فریا”آنکھوں کا زنا (نامحرم عورت کی طرف)دیکھنا ہے،کانوں کا زنا (حرام آوازکا)سنناہے،زبان کا زنا(ناجائز)کلام کرنا ہے،ہاتھ کا زنا (ناجائز)پکڑنا ہے اور پیرکا زنا(حرام کی طرف)چل کرجانا ہے اور دل خواہش کرتاہے اور آرزوکرتاہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کر دیتی ہے“۔حضرت ام سلمہ ؓبیان کرتی ہیں کہ میں اور حضرت میمونہ ؓمحسن انسانیت ﷺکے پاس بیٹھی تھیں کہ ایک نابینا صحابی ابن ام مکتوم ؓحاضر خدمت اقدس ہوئے تو ہمیں حکم ہوا کہ ”تم (دونوں)ان سے پردہ کرو“،ہم نے عرض کی یارسول اللہ ﷺکیا وہ تو نابینا نہیں ہیں؟؟پس محسن انسانیت ﷺنے فرمایا ”کیا تم (دونوں)بھی نابینا ہو؟؟کیا تم (دونوں)انہیں نہیں دیکھتیں؟؟“۔حضرت عبداللہ بن عباس ؓنے فریایاکہ محسن انسانیت ﷺنے عورتوں والا حلیہ اختیار کرنے والے مردوں پر اور مردانہ انداز اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے،اسی مضمون کو حضرت ابوہریرہ ؓنے بھی یوں بیان کیا کہ ”محسن انسانیت ﷺنے اس آدمی پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کاسا لباس پہنتاہے اور اس عورت پر بھی لعنت فرمائی ہے جو مردوں کاسا لباس پہنتی ہے۔
شرم و حیا بعض اوقات بوجھ تصور ہوتے ہیں اوربہت کچھ معاشرتی تقریبات میں تکلیف کاباعث بھی شاید سمجھے جاتے ہوں،جیسے مردوں اورعورتوں کے لیے قیام و طعام اور نشست و برخواست کا جداجداانتظام کرنااور زنانے میں مردوں کے داخلے پر جزوی پابندی،مردحضرات کے لیے غص بصر(نظریں نیچی رکھنے)کاحکم اور خواتین کے لیے حجاب اوراوڑھنیوں کاقانون اوربازاروں میں اورمیلوں ٹھیلوں اورکھیل تماشوں میں خواتین کی حتی الامکان حوصلہ شکنی وغیرہ لیکن ان معمولی بارگراں جیسے انتظامات کے نتیجے میں ایک بہت بڑا ثمرآورمعاشرہ وجودمیں آتاہے جہاں نسلوں کے نسب مکمل طورپر محفوظ ہوتے ہیں اور آنکھوں میں شرم و حیاکے باعث سینوں میں ایمان بھی سلامت رہتاہے۔یہ انتظامات اگرچہ بعض اوقات معمولی کوفت کاباعث بھی بن جاتے ہیں لیکن حساب کے عملی قاعدے کے مطابق آمدن اور خرچ کے تقابل کے بعد نفع یانقصان کا تعین کیاجاتاہے۔چنانچہ اس معمولی سی تکلیف کے بعدعالم انسانیت کو اگر ایمانی و روحانی و جسمانی صحت بھی میسر آجائے تو سودا نہ صرف یہ مہنگانہیں بلکہ انتہائی سود مند اور بارآور ہے۔اس کے برعکس مخلوط میں محافل میں سب سے پہلے آنکھوں کی حفاظت مطلقاََناممکن ہوتی ہے۔ آنکھوں کے راستے دل کی آلودگی شروع ہوجاتی ہے کیونکہ آپﷺ کے ایک ارشادمبارک کامفہوم ہے کہ”نظر دل کی طرف تیروں میں سے ایک تیر ہے“۔نظر بازی سے ناجائزآشنائیوں کے راستے کھلتے ہیں اور پھرانسانی معاشرہ بلآخرتباہی کے اس گڑھے میں جاگرتاہے جس سے بچانے کے انبیاء علیھم السلام کو مبعوث کیاگیاتھا۔ہرمیدان عمل کی طرح جب حیااور شرم کے میدان میں بھی آسمانی تعلیمات سے منہ موڑ کر روگردانی کی جائے اور احکامات ربانیہ کوپس پشت ڈال کر شادمیانیوں کے گل چھڑے اڑائے جائیں گے تو تباہی و بربادی انسان کا مقدر ٹہرے گی۔
بے حیائی کا منطقی وتاریخی نتائج میں سے ایک بہت بہت بھیانک نتیجہ خاندانی نظام کی تباہی ہے۔شرم و حیاکاایک نتیجہ نکاح کے ادارے کی مضبوطی و پختگی اوردوام بھی ہے۔مرد کو جب دوسری عورتیں نظرہی نہیں آئیں گی یا لپٹی،سمٹی اورڈھکی ہوئی نظر آئیں گی تو چاہتے ہوئے یانہ چاہتے ہوئے بھی اس کی تمام تر توجہ اپنی ہی زوجہ کی طرف رہے گی۔اسی طرح جب عورت کاچاہنے والا صرف ایک ہی ہوگااس کااپناشوہر تو اس کامرکزالتفات کبھی منتشرنہیں ہوگا،اور خاندانی نظام مضبوط سے مضبوط ترہوتاچلاجائے گا جس کا نتیجہ سوائے خیر کے کچھ بھی برآمد نہیں ہوگا۔اگرتصویر کا دوسرارخ مشاہدہ کیاجائے تو دنیامیں اس قبیل کے بھی بے شمار معاشرے نظر آئیں گے۔ایسے معاشرے معاشقوں کی بھینٹ چڑھ کر زندہ انسانوں کا قبرستان بن چکے ہیں،بے روح انسانوں کے اجسام کاجم غفیرہے جوایک دوسرے سے بیزارحرص و حوس کی دوڑ میں چندسکوں کے عوض باہم جھنجھوڑنے،بھنبھوڑنے اورنوچنے،چاٹنے،سونگھنے اورچکھنے کے بعد اگلے شکار کی تلاش میں کسی دوسرے بے روح جسم سے کفن کوتارتارکرنے کی تگ و دومیں مصروف عمل ہوجاتاہے۔شرم و حیا کے قحط نے وہاں کے انسانوں کی روحوں کو بے آب و گیاہ ریگستان کی مانند تپتے ہوئے پیاسے صحراکی مثال بنادیاہے جہاں ہر سوسراب ہی سراب ہیں۔رحم کے رشتے ہوں یانسبی و صحری تعلقات ہوں،شرم و حیاء کی قلت وتعدیم نے ہرنوع کے دامن عصمت کوورق ورق کردیاہے۔ اوراس کا وہی مذکورہ نتیجہ برآمد ہوہے کہ عریانی و فحاشی کے خونخوارہاتھوں سے خاندانی نظام درہم برہم ہوکررہ گیاہے۔
لومڑی گڑھے میں پھنسی تھی،باربارچھلانگیں لگانے کے باوجود نکل نہیں پارہی تھی۔گدھے نے دیکھاتو لومڑی نے فوراََگڑھے کی دیواروں کو سونگھ کر آنکھیں اس طرح بندکیں کہ جیسے بہت لذت وسرورآرہاہو۔گدھے نے پوچھاتولومڑی نے گڑھے کے قصیدے پڑھنے شروع کر دیے کہ گویا یہ گڑھاقطعہ بہشت بریں ہے۔گدھے نے آؤدیکھانہ تاؤ چھلانگ لگادی۔لومڑی نے گدھے کی کمر پراپنے پاؤں ٹکائے اور چھلانگ لگاکر گڑھے سے باہر آگئی۔دشمن اپنے پورے وسائل،قوت و طاقت اور ذہنی وفکری صلاحیتوں اورتحریری و تقریری موادسے سے امت مسلمہ کے سامنے عریانی و فحاشی و مے خواری و بدکاری و لذت گناہ اوگناہ بے لذت کے اس مکروہ اوربدبودارومکروہ گڑھے کو جنت بناکردکھانے میں پوری طرح مصروف ہے۔جب کہ غداران ملت ہمیشہ کی طرح اس باربھی گدھے کاکرداراداکرکے اپنی وہ قیمت وصول کررہے ہیں کہ جس کاخمیازہ صدیوں تک نسلوں کوبھکتناپڑے گا۔ایسے لوگوں کے بارے قرآن مجیدنے واضع طورپر کہاہے کہ ”اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃَ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۴۲:۹۱)“۔ترجمہ:”جولوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیااورآخرت میں دردناک عذاب کے مستحق ہیں،اللہ تعالی جانتاہے اورتم نہیں جانتے“۔دشمن ہمیں اس گڑھے میں دانستہ طورپر گرانا چاہتاہے جہاں سے نکلنے میں وہ خودبری طرح ناکام ہے،لیکن وہ گڑھے میں پھنسنے کے بھیانک انجام سے ہمیں اس لیے آگاہ نہیں کرتاکہ ہم اس کے جال میں بآسانی شکارہو جائیں۔لیکن اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺکی تعلیمات ہمارے لیے بہت کافی ہیں،الحمدللہ۔
گزشتہ اقوام کی تبای ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ گناہ کے کام مل کر اجتماعی طورپرکیاکرتے تھے۔اللہ تعالی کا ہر عذاب اگرچہ بڑا عذاب ہے لیکن سب سے سخت ترین عذاب قوم لوط پر آیا جو اجتماعی عذاب بھی تھا اور انفرادی عذاب بھی۔اس قوم کے جرائم میں ایک جرم یہ بھی تھا کہ وہ شرم و حیا سے عاری ہو چکی تھی اور بے حیائی کے کام بھری محفلوں میں سرعام کیا کرتے تھے۔قوم لوط کے لوگوں کی گفتگو ئیں،ان کی حرکات و سکنات،اشارات و کنایات اور ان کے محلے اور بازارسب کے سب عریانی و فحاشی اور برائی و بے حیائی کا مرقع تھے،تب وہ غضب خداوندی کے مستحق ٹہرے۔آج کی سیکولر تہذیب نے بھی انسانیت کوحیاکے لبادے سے ناآشنا کر دیا ہے اور انسان کوثقافت کی آڑ میں اپنے خالق و مالک سے دور کر کے توتباہی و بربادی کے دہانے پر لاکھڑاکیاہے۔پس جو بھی اس بے ہودگی و ہوس نفس کی ماری پر کشش اورفریب زدہ سیکولرتہذیب میں داخل ہو گاوہ ان الانسان لفی خسر کی عملی تصویر بنتے ہوئے ممکن ہے کہ قوم لوط میں شمار ہوکہ یہ سیکولر فکر خالصتاََابلیس اور اس کے پیروکاروں کا راستہ ہے جس کا انجام بھڑکتی ہوئی آگ کی وادیاں ہیں،اور جو اس نقصان سے بچنا چاہے اس کے لیے کل انبیاء علیھم السلام کا طریقہ حیات موجود ہے جسے بسہولت حیات حیاداری کا نام دیا جاسکتاہے،کہ اس دنیامیں انسانوں سے حیا اور روز محشراللہ تعالی بزرگ و برترکے سامنے پیش ہونے کا خوف و حیا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...