عجیب بات ہے نا٠٠٠٠٠٠ہم کنٹرول کئے جاتے ہیں ۔ ہمارے اوپر کوئی قابض ہے ۔ کیا آپ کو ایسا محسوس ہو ا ہے کبھی ۔ دیکھئے ہوتا تو ہے ایسا ۔شاید ہم نامحسوس طریقہ سے غیر کے چنگل میں پھنسے ہیں ۔آج ہمارے معاشرہ کے جوان حضرات کہاں جارہے ہیں ٠٠٠٠٠٠٠٠٠!؟ کس تہذیب کو دل دے بیٹھے ہیں ٠٠٠٠٠٠٠٠٠!؟ یہ نہایت سادہ سوال ہے اور جواب تھوڑا ساسخت ہوسکتا ہےمگر جاننے والوں کے لیے پھر بھی آسان ہے۔
حقیقت ہے کہ ہم غلام تھے اورالحمد للہ آزادہوگئے اس لئے اب ’آزاد غلام‘ ہیں۔ یہ غلامی بھی بڑی بھیانک چیز ہے۔ پہلے وہ ہمیں خریدتے تھے لیکن آج ہم انہیں خرید تے ہیں ، انہیں کا مطلب ، ان کی تہذیب،مغربی کلچر، مغربی افکار۔ ہمارے رہن سہن ، ہمارے لباس، ہمارے نظامِ تعلیم، سب باہر سے آرہے ہیں۔ بات وہی ہوئی ، جسمانی آزاد ہوئے تو فکری غلامی نے ساتھ پکڑلیا۔ اس پر فخر بھی ہےجبکہ ہونا نہیں چاہئے ۔ دراصل ، یہ تلخ عبارت شاید گلے سے نہ اترے اور اس کے بدلے زبان سے کچھ نکل ہی جائے لیکن ٠٠٠٠٠٠٠٠ حقیقت ہے۔ اگر تسلی کی بات ہو تو یہ بھی کہہ دیںگے کہ ہم ماڈَرن ہیں ،ترقی یافتہ ہیں۔ بجا کہتے ہیں ۔ آپ نے ترقی کی نہیں ، فرمائی ہے۔ مگر یہ بھی توسوچیں کہ کیا کچھ چھوڑ بھی آئے ہیں ،ہم اس وقت اخلاقیات کے پاتال ہیں۔ابھی بزرگوں کےپاس چلے جائیں، ساری ترقی کا بخار اتر جائے گا۔ تربیت میں جانے کہاں سے خلل پڑا کہ ہم مغرب زدہ ہوئے جارہے ہیں ۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمارے پاس تہذیب نہیں۔اس لیے ہم ان سے کچھ لے رہے ہیں ، نہیں ۔ ہمارے پاس تو تمدن کی فراوانی ہے۔ خیر۔۔۔۔۔۔!ابھی بہت دیر تو نہیں ہوئی ہے ، سو تبدیلی ممکن ہے اور جب جاگو تبھی سویرا ۔
۱۴ ؍ فروری کو ہندوستان میں کیا ہوا، یہ بات شاید بہت کم جوانوں کو یاد ہوگی لیکن مغربی تہذیب کا کھلا گلاب ہر کسی کو یاد ہے۔ ولنٹائنس ڈے کو کون فراموش کرسکتا ہے اور اگر کوئی بھولنا بھی چاہے تو اسے یاد دلادیا جاتا ہے ،میڈیا ، سوشل میڈیا کے ذریعہ ۔اب تویہ مٹھی میں ہے۔ ادھر کلک کیا ادھر ریسیو ہوااور بات پہنچ گئی ۔ اس دن کے سلسلے میں بہت ساری باتیں کہی جاتی ہیں۔ گو جتنے منھ اتنی باتیں ٠٠٠٠٠٠!
تاریخ میں ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں رومانی بادشاہ کلاڈیس ثانی (Claudious ll)اپنے وقت کا ایک سفاک بادشاہ تھا۔ اس کے زمانہ میں جب سلطنت روم میں جنگ کا دور چلا تو اس نے لشکر تیار کرنے کو کہا لیکن سوا ئے چند کے،فوج جنگ کے لیے آمادہ نہیں ہوئی ۔اس نے وجہ دریافت کی تو معلوم ہواکہ شادی شدہ مرد اپنے اہل و عیال سے دور ہو کر شریک معرکہ نہیں ہوناچاہتے اورنوجوان اپنی معشوقہ کے دام عشق سے باہر نہیں آنا چاہتے۔تب اس نے فرما ن جاری کیا کہ اب کوئی شادی بیاہ نہیں کرے گا مگر ولنٹائن نے اس شاہی حکم نامہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شادی رچالی۔ جب بادشاہ کو اس بات کا علم ہواتو اس نے اسے پھانسی پر لٹکادیا۔
دوسری تایخ میں یوں ملتا ہے کہ ولنٹائن نامی ایک پادری تھا۔ وہ ایک راہبہ کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہوگیا چونکہ عیسائی مذہب میں پادری اور راہبہ کے لئے نکاح ممنوع ہے،اس لئےایک روز اس نے اپنی معشوقہ کی تسکین کی خاطر ایک خواب بیان کیا کہ چودہ فروری کا دن ایسا ہے کہ اگر اس میں کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کرلیں تو کوئی حرج نہیں اور اسے گناہ کے زمرے میں شامل نہیں کیاجائے گا۔
راہبہ بھی اس کی میٹھی باتوں میں آگئی ۔ دونوں نے عشق کے نشہ میں کلیسا کی ساری روایات کو بالائے طاق رکھ دیااوروہ کر وہ سب کچھ کر گزرے جو نام نہاد عشق و محبت میں ہوا کرتاہے۔کلیسا کی روایت کی یوں دھجیاں اڑا دینے پر اس کا بھی وہی حشر ہوا جوہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے ، قتل کردیاگیا۔بعد میں کچھ منچلے اور مغرب زدہ حواس باختہ ٹولہ نے ولنٹائن کو’ شہید محبت‘ کا لقب دے کر اس کی یاد منا شروع کردی۔
اس کے متعلق یہ بھی کہا یہ جاتاہے کہ اس کا آغاز ایک رومی تہوار لوپر کیلیا(Luper Calia)”بھیڑیا کا تہوار‘‘کی صورت میں ہوا۔ یہ۱۳ تا ۱۵؍فروری منایا جانے والاتہوارہے۔اس روز قدیم رومی باشندے اپنے دیوتاؤں سے بدی کی طاقت سے نجات اور معاشرے کو اچھا ئی کی طرف راغب کرنے اور خوشحالی و زمین کی زرخیزی کی دعائیں مانگتے تھے۔رومی حضرات اس تہوار کو’ لوپا‘ (Lupa)نامی دیوی سے منسوب کرتے تھے۔کہاجاتا ہے کہ یہ ایک مادہ بھیڑیا تھی جس نے دو شیر خوار یتیم بچوں ؛رومولس (Romulus)اور ریمس (Remus)کو اپنا دودھ پلایاتھا۔ رومیوں کی تاریخ کے مطابق بعد کے زمانہ میں انہیں دونوں نے ’ملک روم‘ کی بنیاد ڈالی۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس روز قدیم روم میں لڑکیاں پرچیوں پر اپنا نام لکھ کر ایک صندوق میں ڈال دیا کرتیں ،لڑکے آتے ،اسے نکالتےاوراس میں جس لڑکی کا نام آجا تا وہ اس کی دوست بن جاتی ۔ پھر عشق ومحبت کا دور شروع ہوچلتا اور وہ سب کرتے جو نہیں کرناچاہیے ہوتا ہے٠٠٠٠٠٠!
ان سب میں ایک واقعہ جو سب سے زیادہ مشہور ہے اور اسےبہت سوں نے تحریر کیا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ اس کا آغاز ”رومن سینٹ ولنٹائن‘‘کی مناسبت سے ہوا جسے’ محبت کا دیوتا‘ بھی کہتے ہیں ۔ اسے مذہب تبدیل نہ کرنے کی جرم میں قید وبند کی صعوبتوں میں رکھا گیا۔ قید کے دوران اسے جیلر کی لڑکی سے پیار ہوجاتاہے٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠ سولی پر لٹکانے سے پیشتر اس نے جیلر کی بیٹی کو الوداعی محبت نامہ لکھا جس میں دستخط سے پہلے ”تمہارا ولنٹائن ‘‘تحریر تھا۔ یہ واقعہ ۱۴؍ فروری ۲۷۹؍عیسوی کو پیش آیا اور اسی کی یادمیں’ ولنٹائنس ڈے‘ منایا جاتاہے۔
بہرکیف٠٠٠٠٠٠٠٠٠!اس میں چاہے جتنے خرافاتی پردے ہوں لیکن اتنا تو ضرور ہے کہ اس کا پس منظر جھوٹ، فریب اور دھوکہ دھڑی سے عبارت ہے۔اس میں پھول اور کارڈ بھی قابل ذکر ہیں۔لڑکے بیچارے ،لڑکیوں کو تحفہ میں کم از کم پھول تو دیتے ہی ہیں اور ایک فول کا ایک پھول کو پھول ہدیہ کرنا اور پھر پیار کی جھپکی دینا ۔یہی سب تو ہے ، ہماری آزاد غلامی کی نشانی ۔
تحفہ دینا ،بذات خود بری بات نہیں مگر نامحرم سےجھوٹی محبت کے راگ الاپنا بہرحال غلط ہے۔اگر ہم انسانیت کی بات کریں تو ایسا کرنےسے ہماری ہی برائی کا پتا چلتا ہے کہ ہم ایک نامحرم کےساتھ جس رویہ سے پیش آتے ہیں،ہم خوداسے اپنے لئے ناپسند کرتےہیں ۔محبت ہی کرنا ہےتو پھر صحیح راستے کا انتخاب کریں ۔انسانیت اور فلاح وبہبودی اسی میں مضمر ہے۔