کیا واقعی ؟؟؟؟؟
=======================================
ایک تاریخ آئی تھی پاکستان میں بارہ مئی 2007 , ہر سال نوحہ کناں ہوتا ہے الیکٹرانک میڈیا بھی اور سوشل میڈیا بھی , درست ہے ہونا بھی چاہئے کہ انسانی جان کا زیاں بہرحال ناقابل تلافی ہوتا ہے , کچھ لوگ اسے پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن اور کچھ سیاہ ترین دن گردانتے ہیں لیکن یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب یا تو تاریخ سے واقفیت نہ ہو یا تاریخ بھلادی گئی ہو یا تاریخ یاد رکھنا منشا نہ ہو۔
بارہ مئی کو تو مسلح سیاسی گروہوں کا آپس کا تصادم تھا جو باون جانیں لے گیا تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے سیاسی کارکنوں کے خون کی قیمت پر اپنا اپنا سیاسی ایجنڈا حاصل کیا۔
ایسی سیاہ راتیں بھی ہیں جب مارنے والوں کے پاس ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ریاستی پشت پناہی بھی تھی جبکہ مرنے والے بالکل نہتے یا اپنے گھروں گھروں میں نیند کی وادیوں میں کھوئے خاندان۔
چلیں کچھ اس تاریک ماضی پر بات کریں شائد اہل نظر موازنہ کریں کہ کیا ایک بارہ مئی ہی ہے ہمارے پاس نوحہ کرنے کے لئے۔
دیکھتے ہیں کہ کیا یہی ایک سیاہ دن گذرا پاکستان کی تاریخ میں یا اس سے بھی کچھ گہری سیاہ راتیں مقدر بنیں جن کا اب ذکر تک نہیں کہ مرنے والے شائد انسانوں کی گنتی میں نہ آتے تھے ,
07 جنوری 1953 = ڈاؤ میڈیکل کالج کی طلبہ تنظیم ڈی ایس ایف کا طلبا حقوق کی خاطر ایحوکیشن منسٹر سے ملنے جانا اور پولیس کی فائرنگ سے ستائیس (27) کراچی کے طلبہ کا جاں بحق ہونا۔ یہ ہرگز بھی یوم سیاہ نہ تھا۔
04 جنوری 1965 = گوہر ایوب کی قیادت میں قاتلوں کے ٹولے نے اہلِ کراچی کی آبادیوں پر شب کی سیاہی میں حملہ کردیا تیس (30) لوگ مارے گئے سو سے زیادہ زخمی ہوئے جنہیں کسی سرکاری ہسپتال سے طبی امداد نہ دی گئی کہ یہ لوگ ریاستی معتوب تھے پاکستان کے شہری نہ تھے , سیکڑوں گھر جلا کر ان میں رہنے والے خاندانوں کو یے گھر کردیا گیا۔ براہ مہربانی اسے بھی یوم سیاہ نہ کہا جائے۔
15 اپریل 1985 کو بشریٰ زیدی نام کی ایک طالبہ کے ٹریفک حادثے میں ہلاک ہونے کے بعد مشتعل طلبا کے اجتماع پر پولیس کی اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں دس سے پندرہ طلبا ہلاک ہوئے کسی کے کان پر جوں نہ رینگی کہ مرنے والے کراچی سے تعلق رکھتے تھے اس لئے کاہے کا یوم سیاہ۔ اس حادثے کے بعد شروع ہونے والے ہنگاموں کو لسانی رخ دے کر مزید بھڑکایا گیا اور ایک بار پھر کراچی خون میں نہاگیا فسادات کے تھمتے تھمتے تقریباً 188 لوگ جاں بحق ہوئے۔۔!!
14 اور 15 دسمبر 1986 کا دن شایداہل کراچی کبھی نہ بھلا سکیںجب اورنگی ٹاؤن کی علی گڑھ کالونی اور قصبہ کالونی میںبدترین قتل عام کیا گیا چار سو لوگوں کو جی ہاں چار سو نہتے لوگوں کو ان کے گھروں میں گھس کر مارا گیا مسلسل دو دن وحشت و بربریت کا یہ کھیل جاری رہا پورا اورنگی ٹاؤن ان دہشت گردوں کے محاصرے میں تھا جنہیں بعد میں حکومت وقت کی طرف سے سہراب گوٹھ پر قابض افغان منشیات فروشوں کا گروہ ظاہر کیا گیا لیکن ریاست کی طرف سے نہ ان دو دنوں میں لوگوں کو بچانے کے لئے کوئ رد عمل آیا نہ بعد میں انہیں کبھی انصاف مل سکا۔ یقیناً سیاہ دن تو یہ بھی نہ تھا کہ سیاسی جماعتوں کے کارکن نہ مرے تھے۔
https://tune.pk/…/some-evidences-of-qasba-aligarh-massacre-…-
30 ستمبر 1988 کا دن حیدرآباد والوں پر قیامت بن کر ٹوٹا اسے ‘بلیک فرائیڈے’ بھی کہا جاتا ہے۔۔۔ ایک قوم پرست تنظیم کے سربراہ اور ایک اشتہاری ڈاکو جانو آرائیں کی سربراہی میں حیدرآباد کی سڑکوں پر خون کی ہولی کھیلی گئی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 250 افراد مارے گئے۔۔ اس قتل و غارت کے ذمہ داران آج بھی کھلے عام اپنی قوم پرستانہ کارروائیوں میں مصروف ہیں انصاف ان ڈھائی سو مقتولوں کو بھی نہ مل سکا۔ لیکن یوم سیاہ یہ بھی تو نہیں۔
26 مئی 1990 سانحہء پکا قلعہ حیدرآباد جسے احاطہ تحریر میں لانے کے لئے لوہے کا جگر چاہئے تو جنہوں نے بھگتا ہوگا ان کا کیا حال ہوا ہوگا پورے حیدرآباد میں مسلسل 272 گھنٹے سے کرفیو کا نفاذ تھا فوجی دستے پورے شہر میں گشت کررہے تھے اسی دوران حکومت وقت کی طرف سے اندرون سندھ کے ڈکیتوں کو ایگل فورس نامی پولیس کی وردی پہناکر پکا قلعہ کی طرف روانہ کیا گیا , جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری کے نام پر آپریشن شروع کیا گیا , 272 گھنٹوں کے اس کرفیو کے دوران تمام علاقے کی بجلی گیس اور پانی پہلے سے بند تھا اس ایگل فورس نے اُن عورتوں اور بچوں کے خون سے اس آپریشن کا آغاز کیا جو اپنے ہاتھوں میں قرآن اٹھائے سڑکوں پر موجود تھے کہ خدارا گیس اور پانی فراہم کرو کہ ہمارے بچے مررہے ہیں 250 سے زیادہ مرد عورتوں اور بچوں کو صرف پکا قلعہ کے علاقے میں چوبیس گھنٹے کے دوران موت کے گھاٹ اتارا گیا سیکڑوں گھر اور دکانیں لوٹ کر انہیں نذر آتش کردیا گیا جبکہ فوج شہر میں موجود تھی آخر ستائیس دسمبر کی شام جب اہل حیدرآباد تک یہ ہولناک خبر پہنچی تو وہ کرفیو کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں حیدرآباد کی سڑکوں پر اترآئے اور فوج کو بامر مجبوری یہ خونریزی رکوانی پڑی ورنہ شائد ایک بھی زندہ نفس نہ بچنا تھا پکا قلعہ میں۔
آپ یقین کریں یہ تمام یوم ہرگز ہرگز بھی یوم سیاہ نہ کہلائیں گے کہ یہ جن کا ذکر ہوا سب کیڑے مکوڑے تھے انسان تو صرف بارہ مئی 2007 کو مرے کہ اہل اقتدار بھی اس دن کو زندہ رکھ کر مزید قیمت وصولنا چاہتے ہیں خون کی باقی تو جو بھی مرا آج تک خون خاک نشیناں تھا سو خاک ہوا۔
بارہ مئی کا سوگ منا کر جیو۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...