تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنے کاموقع دینے والی دلچسپ داستان
سال کے365 دن 12؍ مہینے رکھتے ہیں۔ ان میں کوئی30، کوئی31 اور کوئی28 یا29 دن کا ہوتا ہے۔
ان مہینوں کے نام کس طرح رکھے گئے، یہ داستان دلچسپ پس منظر رکھتی ہے۔
جنوری
عیسوی سال کے پہلے مہینے کا نام، رومیوں کے ایک دیوتا جانس (Janus) کے نام پر رکھا گیا۔
جانس دیوتا کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی پوجا صرف جنگ کے دنوں میں کی جاتی تھی ,امن میں نہیں۔ دیوتا کے دو سر تھے، جن سے وہ بیک وقت آگے پیچھے دیکھ سکتا تھا۔اس مہینے کا نام جانس یوں رکھا گیاکہ جس طرح دیوتا اپنے دو سروں کی وجہ سے آگے پیچھے دیکھ سکتا ہے، اسی طرح انسان بھی جنوری میں اپنے ماضی و حال کا جائزہ لیتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنوری کا لفظ لاطینی زبان کے لفظ جنوا (Janua) سے اخذ کیاگیا جس کا مطلب ہے ’’دروازہ‘‘۔ یوں جنوری کا مطلب ہوا ’’سال کا دروازہ‘‘۔ماہ جنوری31؍ دِنوں پر مشتمل ہے۔
فروری
ایک زمانے میں فروری سال کا آخری اور دسمبر دوسرا مہینا سمجھا جاتا تھا۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے دور میں فروری سال کا دوسرا مہینا قرار پایا۔ یہ مہینا اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ سب سے کم یعنی28؍ دن رکھتا ہے جبکہ لیپ (Leap) کے سال میں فروری کے29؍ دن ہوتے ہیں۔ چنانچہ لیپ کا سال 366 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ ہر چوتھا سال لیپ کا سال ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سورج کرۂ ارض کے گرد اپنے مدار کا سفر 365 دن اور چھ گھنٹوں میں طے کرتا ہے۔ لیکن3 سال کے دوران اس کا ہر سال365 ؍دنوں کا ہی شمار ہوتا ہے جبکہ چوتھے سال میں 1/4حصے جمع کریں تو یہ ایک دن کے برابر بن جاتا ہے۔ یوں ایک دن زیادہ جمع کرکے یہ 366 ؍دن کا یعنی لیپ کا سال کہلاتاہے۔لفظ فروری بھی لاطینی زبان فیبرام (Febru m) سے اخذ کیا گیا جس کا مطلب ہے ’’پاکیزگی کا ذریعہ‘‘۔
مارچ
اس مہینے کا نام رومی دیوتا مارس (Mars) کے نام پر رکھا گیا۔ مارس کو اُردُو میں مریخ کہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ دیوتا بڑا خطرناک تھا۔ رومی دیومالا کے مطابق اس کے رتھ میں انتہائی منہ زور گھوڑے جتے ہوئے ، رتھ میں دیوتا نیزہ تھامے کھڑا ہوتا۔
نیزے کی انی کا رُخ آسمان کی طرف تھا۔ دوسرے ہاتھ میں ڈھال ہوتی۔
دیوتا کا چہرہ آسمان کی طرف اٹھا ہوتا۔ اہلِ روم اسے سب سے طاقتور دیوتا سمجھتے تھے۔ ان کے عقیدے کے مطابق بارش، بجلی، بادل اور گرج چمک سب مارس دیوتا کے ہاتھ میں تھا۔ یہ مہینا بھی 31 دنوں پر مشتمل ہے۔ لفظ مارچ لاطینی زبان کے لفظ مارٹئیس (Martius) سے اخذ کیاگیا۔اسی لفظ سے سیارہ مریخ کا نام (Mars) بھی بنایا گیا ۔مارچ کے مہینے میں عموماً موسمِ بہار کا آغاز ہوتا ہے۔
اپریل
یہ مہینا 30؍ دِنوں پر مشتمل ہے۔اپریل لاطینی لفظ، اپریلس (Aprilis) سے بنا ہے۔ اس کا مطلب ہے کھولنے والا، آغاز کرنے والا۔ اس مہینے میں چونکہ نئے پودوں اور درختوں کی نشوونما کا آغاز ہوتا ہے،چنانچہ اسے کسی دیوی یا دیوتا نہیں بلکہ بہار کے فرشتے سے منسوب کیا گیا۔
مئی
یہ سال کا پانچواں مہینا ہے 30 دن رکھتا ہے۔اس مہینے میں بھی بہار کے کچھ اثرات باقی ہوتے ہیں۔ لفظ مئی انگریزی زبان میں فرانسیسی لفظ مائی (MAI) سے اخذ کیا گیا ہے۔یہ لاطینی زبان کے لفظ مائیس (Maius) سے اخذ شدہ ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس مہینے کا نام ایک رومی دیوی میا (Maia) کے نام پررکھا گیا۔ رومیوں کے نزدیک اس وسیع و عریض زمین کو دیوتا نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا۔اس دیوتا کی سات بیٹیاں تھیں جن میں میادیوی کو سب سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔
جون
اس مہینے کا نام بھی ایک دیوی جونو (Juno) کے نام پررکھا گیا۔ البتہ بعض لوگوں کے نزدیک یہ نام روم کے مشہور شخص جونی لیس کے نام پر رکھا گیا۔ جونو دیوتائوں کے سردار جیوپیٹر کی بیٹی تھی جبکہ جونی لیس ایک بے رحم اور سفاک انسان تھا۔
جولائی
اس مہینے کا نام دیوی دیوتا نہیں بلکہ روم کے ایک مشہور حکمران جولیس سیزر کے نام پر رکھا گیا ۔ ایک زمانے میں یہ پانچواں مہینا تھا۔ جولیس سیزر قدیم روم کا مشہور شہنشاہ تھا۔ مشہور شاعر و ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر نے ’’جولیئس سیزر‘‘ پر ایک ڈراما بھی لکھا ۔
اگست
سال کا آٹھواں مہینا ۔ اس میں31 ؍دن ہوتے ہیں۔
پہلے یہ چھٹا مہینا تھا کیونکہ تب سال کا آغاز مارچ سے کیا جاتا تھا اور کل دس مہینے ہوتے یعنی مارچ تا دسمبر۔ وہ اس طرح کہ قمری سال اور شمسی سال کے مہینوں میں فرق ہوتا تھا۔ قمری سال کے تو بارہ مہینے ہوتے تھے جبکہ شمسی سال کے10 ماہ بنتے تھے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے دو مہینوں کا اضافہ کیا گیا…
جنوری اور فروری۔ یوں شمسی سال میں بھی12؍ مہینے ہوگئے۔
شمسی سال میں اضا فے کے بعد اگست کا نام ایک قدیم رومی شہنشاہ آگسٹس (Augustus) کے نام پر رکھا گیا ۔ (اس مہینے میں پہلے29 ؍دن تھے، بعد میں جولیئس سیزر نے2؍ دن کا اضافہ کرکے31؍ دنوں کا مہینا کردیا)۔ پہلے رومی شہنشاہ آگسٹس کا نام کچھ اور تھا ۔ جب اس نے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے بہت زیادہ کام کیے تو رومی لوگ اس کے اتنے گرویدہ ہوگئے کہ اسے آگسٹس کے نام سے پکارا جانے لگا۔ اس نام کا مطلب ہے، دانا، دانشمند۔ چنانچہ اس مہینے کو آگسٹس کے نام پر اگست کہا گیا۔
ستمبر
30؍ دن رکھتا ہے۔ لاطینی زبان کے لفظ سیپٹ (Se pt) سے بنا جس کا مطلب ہے ’’ساتواں۔‘‘ اس لیے ستمبر کا مطلب ہے ’’ساتواں مہینا‘‘۔ مگر پھر کیلنڈر کی نئی ترتیب سامنے آئی تو یہ نویں درجے پر چلا گیا۔
اکتوبر
لاطینی میں آٹھ کو اوکٹو (Octo) کہا جاتا ہے۔ اسی سے سال کے آٹھویں مہینے کا نام اکتوبر رکھا گیا۔اکتوبر کا مطلب ہے ’’آٹھواں مہینا‘‘۔ اس میں31 دن ہوتے ہیں۔ اب یہ دسواں مہینا ہے۔
نومبر
اس میں30؍ دن ہوتے ہیں۔ لاطینی زبان میں9؍ کو نووم (Novum) کہتے ہیں۔ اسی نام سے مہینے کانام نکلا۔ نومبر کا مطلب ہے ’’نواں مہینا‘‘۔ستمبر کو ساتواں، اکتوبر کو آٹھواں اور نومبر کو نواں مہینا اس وقت کہا گیا جب جنوری اور فروری کے مہینے سال میں شامل نہیں تھے۔بعد میں ان مہینوں کے نام تو وہی رہے البتہ ستمبر نواں، اکتوبر دسواں اور نومبر گیارھواں مہینا بن گئے۔
دسمبر
یہ مہینا31؍ دن رکھتا ہے۔ لاطینی زبان کی گنتی میں دس کا مطلب ہے دسم (De cem)۔اس لفظ کی مناسبت سے دسویں مہینے کو دسمبر کہا گیا۔اب یہ سال کا بارھواں مہینا ہے۔
رومی کب کے اپنی اس دیوی دیوتائوں کی مائتھالوجی کو ترک کر کے عیسائیت اختیار کر چکے۔ اب ان کے نزدیک یہ صرف قصے کہانیوں کی حد تک رہ گیا ہے لیکن حیرت ہوتی ہے کہ ہندو مائتھالوجی جو رومن سے بھی زیادہ مضحکہ خیز اور انتہائ لغویات پر مشتمل ہے کہ جن کو پڑھ کر ہی انسان کی ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔۔ ہندو اس پر نہ صرف اندھا عقیدہ رکھتے ہیں بلکہ ان کے نظریات میں مزید شدت پسندی آتی جا رہی ہے۔
بشکریہ: سائنس اردو ورڈ پریس ڈاٹ کام
انتخاب:
ثناءاللہ خان احسن