آج – 12؍دسمبر 2005
پاکستان سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر ”ساقی امروہوی صاحب“ کا یوم وفات….
نام سید قائم رضا اور تخلص ساقیؔ تھا۔ 1925ء کو اترپردیش کے امروہہ شہر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید علی قاسم اور دادا سید علی اسلم جاگیردار تھے۔ ساقیؔ کے والدین کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا پڑھ لکھ کر بڑا مقام حاصل کرے۔ جب وہ پڑھنے لکھنے کے قابل ہوئے تو انہیں ایک مکتب میں داخل کیا گیا۔ ساقیؔ امروہوی اپنے والد کی اولاد میں سب سے بڑے اور لاڈلے بیٹے تھے۔ والدین کے لاڈ پیار نے انہیں لاابالی اور خود سر بنا دیا۔ اور یہاں تک نوبت پہنچی کے لکھنا پڑھنا چھوڑ کر اکھاڑوں میں کشتی لڑنے اور مشاعروں میں جانے کا شوق پیدا ہو گیا۔ الغرض ساقیؔ شاعری کی طرف راغب ہو گئے۔ امروہا ایک شعر و ادب کی بستی ہے جہاں ذوق سخن کی طرف مائل ہونا تقاضائے فطری تھا۔ تقسیم ہند کے بعد ساقیؔ امروہوی ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے اور کراچی میں مستقل رہائش اختیار کی۔ کراچی میں ذریعہ معاش کی تلاش کے لئے سرگرداں رہے۔ تعلیم نہ ہونے سبب کوئی ملازمت وغیرہ نہ مل سکی۔ البتہ کچھ دن میونسپل کارپوریشن میں ملازم رہے۔ ساقیؔ امروہوی نے شاعری تو بچپن ہی سے شروع کر دی تھی لیکن باقاعدہ اصلاح پاکستان میں کہنہ مشق شاعر میر جواد علی سے لی۔ انہیں کو وہ اپنا استاد کہتے تھے۔ ساقیؔ امروہوی 12؍دسمبر 2005 کو کراچی میں انتقال کرگئے۔
بحوالہ دبستانوں کا دبستان جلد اول صفحہ 222
✨ پیشکش : شمیم ریاض
➖➖ ➖➖
نامور شاعر ساقیؔ امروہوی کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت….
زندگی بھر مجھے اس بات کی حسرت ہی رہی
دن گزاروں تو کوئی رات سہانی آئے
———-
مدرسہ میرا میری ذات میں ہے
خود معلم ہوں خود کتاب ہوں میں
———-
تو نہیں تو ترا خیال سہی
کوئی تو ہم خیال ہے میرا
———-
مجھ کو کیا کیا نہ دکھ ملے ساقیؔ
میرے اپنوں کی مہربانی سے
———-
در بدر ہونے سے پہلے کبھی سوچا بھی نہ تھا
گھر مجھے راس نہ آیا تو کدھر جاؤں گا
———-
میں اب تک دن کے ہنگاموں میں گم تھا
مگر اب شام ہوتی جا رہی ہے
———-
خواب تھا یا شباب تھا میرا
دو سوالوں کا اک جواب ہوں میں
———-
کتنے ہی غم نکھرنے لگتے ہیں
ایک لمحے کی کی شادمانی سے
———-
لوگ بھوکے ہوں تو یہ عقدہ کُھلے
کون کتنا صاحب کردار ہے
———-
میرے اعصاب دے رہے ہیں جواب
حوصلہ کب نڈھال ہے میرا
———-
نہ پا سکیں گے جوانانِ بادہ مست مجھـے
خود اپنی ذات میں خم خانۂ الست ہوں میں
———-
زندگی بھر مجھے اس بات کی حسرت ہی رہی
دن گزاروں تو کوئی رات سہانی آئے
———-
صرف وقتی سُکُون مِلتا ہے
پیاس بجھتی نہیں ہے پانی سے
———-
یہ جُرم کم ہے، کہ سچّائی کا بَھرم رکھا
سزا تو ہونی تھی مُجھ کو ، میرے بیان کے بعد
———-
ہر چند کوئی خواب مکمل نہیں ہوا
میں اس کے باوجود پاگل نہیں ہوا
———-
میں نے حسرت سے نظر بھر کے اُسے دیکھ لیا
جب سمجھ میں نہ محبت کے معانی آئے
♦️ ➖➖ ➖➖ ♦️
ساقیؔ امروہوی
✍️ انتخاب : شمیم ریاض