مجلسیں سُننے کی ہُڑک دل میں بہت تھی ، کہیں مجلس کا پتا پاتے ، بھاگ نکلتے اور اگلی صف میں ذاکر یا مقرر کے سامنے جا براجتے ۔اوکاڑا اور اُس کے مضافات میں شیعوں کی کمی نہ ہوتی تھی ، اِسی سبب آئے دن کہیں نہ کہیں مولا حسین کے دن قیام میں رہتے اور مجلسیں عام میں رہتیں ۔ مَیں اپنے کسی دوست ،چچازاد یا بھائی علی اصغر کے ساتھ ضرور وہاں پہچ جاتا اور آدھی رات کو وآپس ہوتا ۔ حجرہ ، بصیر پور ، حویلی لکھا ، گوگیرہ ۔ فتح پور ، دیپالپور ، دھرمے والا ، چک بہلول پور مصطفیٰ آباد ، شیر گڑھ ،ان سب جگھوں پر سال میں سینکڑوں مجلسیں برپا ہوتیں ۔ آج بھی ہوتی ہیں ، اور مَیں اُنھیں سُنتے ہوئے جوان ہوا ۔ مجلسوں میں نیاز کے چاول یا نان حلیم مولا حسین کے لنگر کے طور پر کھاتا رہا ۔ یوں میری رگوں میں حسین مولا کے لنگر کے ٹکڑے کھا کر مودت کا خون رواں ہوا ۔ مصطفیٰ آباد ہمارے گاوں سے پندرہ سولہ کلومیٹر پر تھا ، یہاں کبھی موٹر سائکل پر اور کبھی سائیکل پر چلے جاتے ۔ یہ گاوں سید گلزارحسنین ، سید گلزار سبطین ، سید اقبال حسن شاہ اور سید شیر شاہ کی ملکیت ہے ۔ پورے چالیس دن یہاں بڑے سے بڑا عالم اور بڑے سے بڑا ذاکر پڑھتا تھا ۔ طالب جوہری ، عبد الحکیم بوترابی ، گلفام ہاشمی ،تاج دین حیدری اور دیگر بہت سے اچھا پڑھنے والوں کو یہیں سُنا ۔ آج تو خیر یہاں کے سادات ،سید گلزار حسنین اور اقبال شاہ صاحبان سے بہت نیاز مندی کا شرف ہے ،لیکن اُن دِنوں ہم مصطفیٰ آباد کو اِن سادات کی بجائے مولا حسین کا ہی دربار سمجھتے تھے ۔ کئی کئی دن آتے رہتے ،مجلسیں سنتے اور نیازیں کھاتے رہتے ۔ جب چالیس دن پورے ہوتے تو قدرے افسوس سا ہوتا ۔ غرض کیا بتاوں یہ زمانے کیسے تھے ۔ آج بھی اگرچہ کوشش ہوتی ہے کہ کہیں مجلس ہو تو شریک ہوا جائے ۔ مگر وہ بچپن کی جوئے بے تابی کچھ اور ہی تھی ۔ اِن مجلسوں نے سچ پوچھیں تو شیعہ قوم کو جو کچھ علم ، ادب اور اخلاقی تربیت سے گزارا ہے دنیا کا کوئی مدرسہ یہ کام نہیں کر سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ زبان و بیان ، علم و آرٹ ، شعر وحکمت میں یہ قوم کم از کم مسلم دنیا مٰیں سب سے آگے ہے ، کوئی اِس بات کو مانے یا نہ مانے مگر سچ یہی ہے کہ مولا حسین کی مجلسوں کا فیض آدابِ زندگی اور آدابِ فنون و حکمت کا چشمہ ہے ۔ خود میری تربیت بھی انھی مجلسوں میں ہوئی ، اِنھی کے سبب کتاب سے اور شعرو شعور سے عشق ہوا ، عقل کی باریکیوں اور لفظ و حرف کا اادراک پایا ۔
اے زمانے والو مولا حسین کی مجلسوں میں جایا کرو، خود برپا کروایا کرو ۔ اے سُنی دوستوخدا شاہد ہے مولا حسین صرف شیعہ کی ملکیت نہیں ہے ، کبھی اپنے گھروں میں مولا حسین کی مجلسیں برپا کر کے دیکھو تمھاری زندگی کے آئنے ہی بدل جائیں گے ۔ گھر کے درودیوار میں کرختگی کی جگہ سبزہ روی اُترے گی، دِلوں کے پتھر نرم گلوں میں بدل جائیں گے ، آنکھیں رو رو کر سُبک ہو جائیں گی چہروں اور سینوں کی گرد دھل جائے گی ۔ واللہ کبھی آو تو سہی
اور نیاز تو ڈائرکٹ مولا حسین کا رزق ہے ۔ یہ رزق کھانے والا ضرور اپنے خون میں ایک دن پاکیزگی کی خبر پائے گا
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...