حضرت خدیجۃ الکبری، وہ بلندمرتبہ خاتون ہیں جنہیں محسن انسانیتﷺ کی اولین زوجہ محترمہ کا شرف حاصل ہوا۔اس منصب کے باعث وہ ”ام المومنین“ کہلائیں اور وہ سب سے پہلی انسان تھیں جنہوں نے آخری نبی کی تصدیق کی اور ان پر ایمان لائیں۔آپ کے دادا ”اسد بن عبدالعزی“عرب کے سب سے محترم قبیلہ قریش کے نامور سرداروں میں سے تھے،آپ کے والد ”خویلدبن اسد“معروف تاجر تھے اوران کی بہن ”ام حبیب بنت اسد“آپ ﷺ کی ننھیالی بزگ خواتین میں سے تھیں اورحضرت خدیجۃ الکبری کی والدہ محترمہ کانام ”فاطمہ“تھااور ان کا شجرہ نسب تیسری پشت میں حضرت آمنہ سے مل جاتاہے۔آپ ﷺسے قبل حضرت خدیجۃ الکبری دو شوہروں،ابوہالہ مالک التمیمی اورعتیق المخذومی سے بیوہ تھیں۔ان دونوں شوہروں سے آپ کی اولادیں بھی تھیں۔قریش میں حضرت خدیجہ کا ایک جداگانہ مقام تھا،انہیں امیرۃ القریش،طاہرہ اورخدیجۃ الکبری کے اسماء سے یاد کیاجاتاتھا۔والدین کی وفات کے بعد حضرت خدیجہ الکبری نے خاندانی کاروبار تجارت کو سنبھالااور اسے وسعت دی۔اپنے وسیع و عریض کاروبار سے حاصل ہونے والے منافع سے آپ سرزمین مکہ کے غرباء و مساکین،یتیم اور بے سہارااور مریض و مفلوک الحال لوگوں کی مدد کیاکرتی تھیں۔آپ کے حالات زندگی میں آپ کے ایک چچازاد کا تذکرہ کثرت سے ملتاہے،یہ ورقہ بن نوفل تھے جو قبائل عرب کے چند پڑھے لکھے لوگوں میں شمار ہوتے تھے اوران دونوں بزرگوں یعنی ورقہ بن نوفل اور حضرت خدیجہ کی مشترکہ صفت یہ بھی ہے کہ دونوں موحد تھے یعنی اپنی پوری زندگی میں انہوں نے کبھی بھی بتوں کی پوجا نہیں کی تھی۔حضرت خدیجہ اپنی تجارتی قافلوں کے ساتھ خود نہیں جاتی تھیں بلکہ اجرت پر رکھے گئے افراد کو بھیجاکرتی تھیں۔اب کی بار انہیں شام کی طرف جانے والے اپنے قافلے کے لیے کسی بھروسہ مند انسان کی تلاش تھی۔ابوطالب کی سفارش پرحضرت خدیجہ نے یہ قافلہ آپ ﷺ کے سپرد کیااور اپنا غلام میسرہ بھی ہمراہ کردیا۔واپسی پر میسرہ نے آپ ﷺ کے حسن معاملات کی بے حد تعریف کی اورحضرت خدیجہ کو جتنے منافع کی توقع تھی اس سے دوچند نفع حاصل ہوا۔یہ پہلاباہمی تعارف تھاجو دائمی تعلق کا مقد مہ ثابت ہوا۔
حضرت خدیجۃ نے اپنی ایک سہیلی ”نفیسہ“کے ذریعے آپﷺکونکاح کی پیشکش کی،آپﷺ نے اپنی غربت کااظہار کرتے ہوئے فرمایاکہ ان کے محدود،وسائل شادی کی اجازت نہیں دیتے۔نفیسہ نے جواب دیاکہ میں جس خاتون کا پیغام لائی ہوں وہ بہت مالدار ہیں،استفسارپر نفیسہ نے خدیجۃ الکبری کا نام لیا۔آپﷺنے اپنے چچاحضرت ابوطالب سے بات کی تووہ مان گئے۔مقررہ تاریخ پر آپﷺ اپنے چچاؤں،خواتین خانہ اورقریش کے دیگرقابل ذکر افراد کے ساتھ حضرت خدیجہ کے گھر تشریف لائے،یہاں شادی کا سماں تھا بھیڑیں ذبح کرکے توکھانا تیارکیاگیاتھا۔کھانے کے بعد قریش کی عرب رسومات کے مطابق شادی کا عمل شروع کیاگیا۔حضرت خدیجہ کے والد چونکہ انتقال فرماچکے تھے اس لیے ان کے چچا عمربن اسدنے دلہن کے ولی کاکردار اداکیا۔عرب روایات کے مطابق حضرت ابوطالب کھڑے ہوئے اور شکرانے کے روایتی الفاظ کے بعد بیس اونٹوں کے حق مہر کے عوض اپنے بھتیجے محمدﷺبن عبداللہ کے لیے حضرت خدیجہ کاہاتھ مانگا۔ورقہ بن نوفل نے جواب میں روایتی الفاظ میں اللہ تعالی کا شکر اداکیااور اس نکاح کو قبول کرنے کا اعلان کیا۔حضرت ابوطالب نے حضرت خدیجۃ الکبری کے چچا کی طرف دیکھاتو انہوں نے بھی کھڑے ہوکراس نکاح کی قبولیت کا اعلان کردیااور اس طرح تاریخ انسانی کا یہ خوش قسمت ترین جوڑانکاح کے بندھن میں بندھ گیا۔اس وقت آپﷺ کی عمر مبارک پچیس برس کی تھی اور حضرت خدیجہ اپنی عمرگزشتہ کی چالیس بہاریں دیکھ چکی تھیں۔دولھااور دلہن دونوں کو حضرت ابوطالب کے ہاں لے جایاگیا۔وہاں حضرت ابوطالب نے دواونٹ ذبح کیے ہوئے تھے اور کل قریش کے لیے دعوت طعام تیارتھی۔شادی اورمہمانوں سے فراغت کے بعدحضرت ابوطالب نے دولہااوردلہن کو بلایا انہیں پیار کیااور اللہ تعالی کاشکر ادکیاجس کی توفیق سے انہوں نے اپنے یتیم بھتیجے کی سرپرستی کا حق اداکردیاتھااور اپنی جملہ ذمہ داریوں سے باحسن سبکدوش ہو چکے تھے۔کچھ دن یہ خوش قسمت جوڑاحضرت ابوطالب کے ہاں قیام پزیر رہااور پھر حضرت خدیجہ کے گھر میں منتقل ہو گئے۔
حضرت خدیجۃ الکبری سے آپﷺ کے چھ بچے ہوئے،بڑے بیٹے کا نام قاسم تھا جس کے باعث آپﷺ کی کنیت”ابو قاسم“تھی۔ایک موقع پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایاتھا کہ میرے نام پر نام رکھو لیکن میری کنیت پر کنیت مت رکھاکرو۔”قاسم“بہت چھوٹی عمر میں اللہ تعالی کو پیارے ہو گئے تھے۔حضرت قاسم کی وفات پر آپﷺ بہت رنجیدہ وآبدیدہ ہوئے۔اس موقع پر ابوجہل نے زبان درازی کی اور کہاکہ آپﷺ ”ابتر“ہو گئے۔”ابتر“ کامطلب ایسا درخت ہے جس کی جڑ کٹ گئی ہو اوراس کاپھلناپھولنا اب ممکن نہ ہو۔چنانچہ اللہ تعالی نے آپﷺ کی تالیف قلب فرمائی اور کہا کہ ”اِنَّ شَانِءَکَ ہُوَ الْاَبْتَرُ(۸۰۱:۳)“ترجمہ: بے شک آپ کا دشمن ہی ابتررہے گا۔حضرات زینب،رقیہ،ام کلثوم اور فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھن آپ کی بیٹیاں اور جنت کی شہزادیاں ہیں جب کہ ایک اور بیٹا عبداللہ بھی اعلان نبوت کے بعدپیدا ہوا۔بی بی پاک فاطمہ کے سوا ساری اولادیں آپﷺ کی حیات طیبہ کے دوران ہی اس جہان فانی سے کوچ کرگئی تھیں۔حضرت خدیجہ کے گھر میں دواور بچے بھی پرورش پارہے تھے،ایک حضرت علی بن ابی طالب،کیونکہ حضرت ابوطالب کے ہاں کثیرالعیالی کی وجہ سے غربت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے تو ان کے چھوٹے بیٹے کی پرورش آپﷺ نے اپنے ذمہ لے لی تھی۔جبکہ دوسرابچہ حضرت زید بن حارث تھے جو پہلے تو غلام تھے لیکن بعد میں آپﷺ نے انہیں اپنا منہ بولا بیٹابنالیاتھا۔اس سارے گھرانے پر حضرت خدیجہ کا دست شفقت و سایہ عاطفت تھا۔
محسن انسانیتﷺکی عادت مبارکہ تھی کہ ہرسال کا ماہ رمضان گزارنے کے لیے مکہ سے باہرایک پہاڑ پر غار حرامیں تشریف لے جاتے تھے۔آپﷺ کی خواہش ہوتی تھی کہ انہیں اس دوران تنہائی میسر رہے۔حضرت خدیجۃ الکبری اپنے محبوب شوہر کی کشش میں پہاڑی پر چڑھ آتی تھیں لیکن غار سے چند قدم نیچے ہی بیٹھ جاتیں تاکہ تنہائی میں خلل نہ ہو۔اس دوران وہ آپﷺ کے خوردونوشت کا بھی اہتمام کرتی تھیں۔ایک بار رمضان کی آخری راتوں میں آپﷺ نصف شب اچانک گھرمیں وارد ہوئے،آپﷺ بے حد گھبرائے ہوئے تھے اور کہ رہے تھے کہ مجھے کمبل اوڑھاؤ،مجھے کمبل اوڑھاؤ۔حضرت خدیجۃ الکبری یہ دیکھ کر بہت پریشان ہوئیں،آپﷺ کے کندھوں پر چادراوڑھائی،جب طبیعت اقدس سنبھلی تو عرض کی کہ احوال بتائیے۔دراصل یہ پہلی وحی کے نزول کا موقع تھا۔آپﷺ اس کے لیے ذہنی طورپر تیار نہ تھے اور اس واقعے کے بعد بڑی سرعت سے پہاڑ سے اترتے ہوئے اپنے گھر کی طرف پلٹے۔آپﷺ نے جبریل علیہ السلام سے ملاقات کی تفصیل بتائی تو حضرت خدیجہ نے سب سے پہلے آپﷺ کی نبوت کی تصدیق کی اور پھر ان الفاظ میں آپﷺ کی تسلی فرمائی کہ”اللہ تعالی آپﷺ کی حفاظت فرمائے گااور آپﷺ کو ہر طرح کے خطرات سے محفوظ رکھے گا کیونکہ آپ رشتہ داروں کے حقوق اداکرتے ہیں،غریبوں کی مدد کرتے ہیں،انجانوں کے ساتھ بھلا کرتے ہیں، پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے ہیں اور ہمیشہ حق کا ساتھ دیتے ہیں“اس واقعے کے بعد ورقہ بن نوفل نے بھی آپ کی نبوت کی تصدیق کردی۔آنے والے دن اپنے ساتھ عزیمت و مصائب کا ایک طوفان ساتھ لائے جب کل قریش آپﷺ کے سامنے خم ٹھونک کھڑے ہو گئے تھے۔لیکن حضرت خدیجہ نے ہر مشکل میں آپﷺکا ساتھ دیا،اپنی دولت بے دریغ خرچ کر ڈالی۔حضرت خدیجۃ الکبری غریب نومسلموں پراپنے وسائل خرچ کرتی تھیں،نومسلم غلاموں کی آزادی پر بڑی بھاری رقوم خرچ کردیتی تھیں اور جیسے جیسے مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتاجاتا تھا حضرت خدیجۃ الکبری کے انفاق فی سبیل اللہ میں بھی اضافہ ہوتاجاتا۔یہاں تک کہ مقاطعہ قریش کے دوران جب مسلمانوں کو تین سالوں کے لیے شعب ابی طالب میں قید کردیا گیاتھا،ان سخت ترین ایام میں بھی حضرت خدیجۃ الکبری کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کی مدد کے راستے تلاش کرتی رہتیں اور کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتیں تھیں۔نبوت کے دسویں سال خانہ نبوت کہ یہ ماہتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔آپ کومکہ مکرمہ کے قبرستان ”جنت المالی“میں دفن کیاگیا۔راقم الحروف جتنی بار بھی مکہ گیا روزانہ باقائدگی سے ام المومنین کی مرقد انور پر حاضری دیتارہا۔
ایک بار حضرت جبریل علیہ السلام حاضر خدمت اقدس ﷺہوئے،جب حضرت خدیجۃ الکبری زندہ تھیں اور فرمایا کہ اللہ تعالی نے حضرت خدیجہ کو سلام بھیجاہے اور میں بھی انہیں سلام کہتاہوں،اس کے بعد جبریل نے کہا کہ انہیں بشارت دے دیجئے کہ اللہ تعالی نے جنت میں ان کے لیے ایک شاندار،خوشنمااورپرسکون محل موتیوں سے تیار کیا ہے اوراس میں کوئی بھی پتھرکا ستون نہیں ہے“۔یہ حضرت خدیجہ نبت خویلدہیں،سب سے اولین ام المومنین ہیں یعنی محسن نسوانیت ﷺنے سب سے پہلے انہیں سے نکاح کیااور ان کے ہوتے ہوئے کوئی عقد ثانی نہیں کیا۔ایک بار آپ ﷺنے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ ”حضرت خدیجہ سے بہتر بیوی مجھے نہیں ملی،وہ اس وقت مجھ پر ایمان لائیں جب اور کوئی مسلمان نہیں ہواتھا،انہوں نے اس وقت میری مالی مدد کی جب باقی لوگوں نے ہاتھ کھینچ لیاتھا اوران سے اللہ تعالی نے مجھے اولاد دی جو کسی اور بیوی سے نہیں ملی۔“جس سال حضرت خدیجہ کی وفات ہوئی اس سال کو ”عام الحزن“یعنی غم کا سال،کہاجاتا ہے کیونکہ یہ سانحہ نبی علیہ السلام کے لیے بہت بڑے غم کا باعث بناتھا،اسی سال آپﷺکے عزیزترین چچاحضرت ابوطالب بھی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔خدارحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...