ایک انداز ے کے مطابق خواتین کی تعداد ہمارے ملک میں کم از کم پچپن فی صد ہے۔ فرض کیجیے اس وقت آبادی بیس کروڑ ہے تو خواتین گیارہ کروڑ بنتی ہیں۔
گیارہ کروڑ خواتین کی سرپرستی، ان کی حفاظت، ان کے حقوق کا تحفظ آسان کام نہیں۔ ملک میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے جتنے ادارے تھے، نجی یا سرکاری، نیم سرکاری یا این جی اوز، سب ناکام ثابت ہوئے۔ خواتین مایوس ہو چکی تھیں۔ خدا خدا کر کے روشنی کی ایک کرن نظر آئی ہے۔ مولانا کے روپ میں خواتین کا ایک محافظ، قومی اسمبلی میں ظہور پذیر ہوا ہے۔
گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں غیرت کے نام پر قتل اور جبری آبرو ریزی کے حوالے سے بلوں کو مؤخر کر دیا گیا۔ وفاقی وزیر نے مؤخر کرنے کی وجہ یہ بتائی کہ ایک طاقت ور مولانا کو اس بل پر تحفظات ہیں۔ ان کی مشاورت ضروری ہے اور وہ شہر میں موجود نہیں؛ چنانچہ بل التوا میں ڈال دیئے گئے۔
اب اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ مولانا اور ان کی طاقت ور جماعت کے نمائندے جن علاقوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں، وہاں خواتین ووٹ ڈالتی ہیں نہ ڈالنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ تو یہ اعتراض بے معنی ہے، مولانا کی جماعت اگر کل ووٹوں کا دو یا تین فی صد حاصل کرتی ہے اور ان میں بھی خواتین کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کے باوجود گیارہ کروڑ خواتین کے حقوق کے بل صرف اس لیے مؤخر کر دیئے جاتے ہیں کہ مولانا کو تحفظات ہیں تو اس کا مطلب سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ مولانا گیارہ کروڑ خواتین کے واحد کفیل ہیں۔
اقبال نے کہا تھا ؎
نے پردہ نہ تعلیم، نئی ہو کہ پرانی
نسوانیتِ زن کا نگہباں ہے فقط مرد
اقبال غلط ثابت ہوئے۔ اب معلوم ہوا کہ عورتوں کے نگہبان مرد نہیں، مولانا حضرات ہیں۔ یوں بھی اقبال خوش قسمت ہیں۔ بچ کر نکل گئے۔ ورنہ اِس زمانے میں یہ شعر کہتے تو کفر کے فتوے سے بچنے کی کوئی صورت نہ تھی! غور کیجیے، اقبال کہہ رہے ہیں کہ پردہ بھی نسوانیتِ زن کا نگہبان نہیں۔
کچھ عرصہ ہوا سوشل میڈیا میں ایک ویڈیو کی دھوم تھی۔ ایک اور مولانا تھے۔ انہیں اپنے وطن کی مٹی سے اتنا پیار تھا کہ وطن کی مٹی پر جان قربان کرنے والے قومی عساکر کو شہید کہنے سے انکار فرماتے تھے۔ ویڈیو میں اینکر ان سے پوچھتا ہے کہ جس مظلوم عورت کی جبراً آبرو ریزی ہوئی ہو، اس کا کیا قصور ہے کہ اسے حوالۂ زنداں کیا جائے۔ اس کا گول مول جواب جو وہ دیتے ہیں، اس سے ایک ہی بات واضح ہوتی ہے کہ اس کا قصور ہے اور بالکل ہے! آج کل حضرت پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ مسلسل بیزاری اور ہر شے کو رد کرنے کے عارضہ کا علاج کرا رہے ہوں گے۔
ایک خاتون نے کل دلچسپ بات کی کہ غیرت کے نام پر عورتوں کا قتل اصل میں بے غیرتی ہے۔ بہر حال، غیرت ہے یا بے غیرتی، یہ تو بعد کا معاملہ ہے۔ اس وقت تو خوشی اس بات کی ہے کہ گیارہ کروڑ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے کوئی بل پیش ہو تو اسے ایسی جماعت کا سربراہ منظور یا منسوخ کرے گا جس کے ووٹروں میں خواتین سرے سے موجود ہی نہیں۔
اور خواتین کو اور چاہیے بھی کیا؟ غیرت کے نام پر قتل ہوتی رہیں، آخر قوم کی غیرت کے لیے قربانی ہی تو دے رہی ہیں۔ اس سے بڑا مقام کیا ہو سکتا ہے۔ جبری زیادتی کے ’’جرم‘‘ میں جیل میں سالہا سال تک پڑی رہیں۔ آخر اس میں حرج ہی کیا ہے کہ زیادتی کرنے والا مرد تو چھوٹ جائے اس لیے کہ گواہ کوئی نہ تھا اور عورت پکڑی جائے اس لیے کہ اس نے فریاد کی تھی۔ یہ فریاد اس کے لیے ’’اعتراف‘‘ بن گیا۔ اب آپ خود انصاف کیجیے، اعتراف کر لیا تو پھر جیل میں تو رہنا پڑے گا۔
عورتوں کے حقوق کے تحفظ کا جو ماڈل ان عالی قدر حضرات کے ذہن میں ہے اس کے خدوخال کچھ اس طرح کے ہیں۔
اسے سکول کالج اور یونیورسٹی سے دور رکھا جائے۔(یہ حضرات اس ملک میں کچھ عرصہ قبل خواتین کو پڑھنا سکھانے کے روا دار تھے لیکن لکھنا نہیں سیکھنے دیتے تھے۔ یہ خدشہ باقاعدہ کتابوں میں مرقوم کیا گیا کہ لکھنا سیکھ گئیں تو پڑوسی مردوں سے خط و کتابت کریں گی)
اسے بازار نہ جانے دیا جائے۔ محلے کے بازار میں بھی جانا ہو تو ’’محرم‘‘ ساتھ ہو۔
شادی کے موقع پر اس کی اجازت یا رضا مندی ضروری نہیں۔ اس ضمن میں اگر عہدِ رسالت کا حوالہ دیا جائے تو اس کا اِن عالی مرتبت حضرات کے پاس کوئی جواب نہیں۔
عورتوں کو وراثت میں حصہ دینا لازم نہیں، ایسا ہوتا تو یہ حضرات کوئی بل ہی پیش کر دیتے۔
ملازمت کرنے کا عورتوں کو کوئی حق نہیں، اس طرح وہ معاشی طور پر خود مختار ہو سکتی ہیں جو کچھ خاص ذہنیت کے مردوں کے لیے قابل قبول نہیں۔
عورتیں ڈرائیو نہیں کر سکتیں۔ تازہ ترین خبر کے مطابق مشرق وسطیٰ کے ایک بہت بڑے مفتی صاحب نے ڈرائیونگ پر پابندی کا دفاع کرتے ہوئے دو اہم وجوہ کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اول یہ کہ اس سے ’’خواتین کی شیطانیت عیاں ہو جائے گی، گویا شیطانیت عورتوں کے اندر موجود ہے مگر نہاں ہے۔ ڈرائیونگ کریں گی تو یہ عیاں ہو جائے گی، دوم یہ کہ اگر وہ ڈرائیونگ کریں گی تو ’’فیملی کے ارکان کے لیے یہ انتہائی مشکل ہو جائے گا کہ وہ ان کی موجودگی سے متعلق معلوم کر سکیں‘‘! دوسرے لفظوں میں اگر عورت گاڑی لے کر گھر سے نکلتے وقت ’’فیملی کے ارکان‘‘ کو بتا بھی دے کہ میں فلاں سکول یا فلاں دفتر یا فلاں مارکیٹ جا رہی ہوں تو مفتی صاحب کے خیال میں اس پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔ موبائل فون کا زمانہ ہے، اگر اس سے، اس کی ڈرائیونگ کے دوران فون پر مسلسل رابطہ رہے تب بھی ’’فیملی کے ارکان کے لیے یہ انتہائی مشکل ہو جائے گا کہ وہ ان کی موجودگی سے متعلق معلوم کر سکیں‘‘۔ مفتی صاحب اور ان کے ہم خیال علما اگر عہدِ رسالت یا عہدِ صحابہ یا گزرے ہوئے دوسرے ادوار میں ہوتے تو عورتوں کو گھوڑ سواری کی یقیناً اجازت نہ دیتے۔ ان گزرے زمانوں کے علماء پر ’’عورتوں کی شیطانیت عیاں‘‘ نہ ہو سکی۔ افسوس، صد افسوس!
اُس عہدِ زریں کا تصور کیجیے جب اس ملک کے کسی گلی، کسی کوچے میں کوئی عورت نظر نہیں آئے گی، کسی دفتر، کسی بازار، کسی سکول، کسی ہسپتال میں کوئی عورت ملازمت نہیں کر رہی ہو گی۔ صدیوں سے ہمارے دیہات میں عورتیں کھیتوں میں فصل کاٹ رہی ہیں۔ پُھٹی(کپاس) چن رہی ہیں۔ کنوئوں، تالابوں سے پانی بھر کر لا رہی ہیں، مویشیوں کو پانی پلانے لے جا رہی ہیں، چھتوں، منڈیروں اور دیواروں پر گارا لیپ رہی ہیں، پوچے سے سفید کر رہی ہیں۔دو دو تین تین عورتیں، کسی مرد کے بغیر، دوسرے قریوں تک پیدل سفر کر رہی ہیں۔ ہل چلانے والے مردوں کو دوپہر کا کھانا پہنچانے جا رہی ہیں۔ یہ سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ کیونکہ جس اصول کے تحت عورتوں کا دوسرے مردوں کے ساتھ سکولوں ہسپتالوں، دفتروں، کارخانوں اور بازاروں میں کام کرنا منع ہو گا، اسی اصول کی رو سے دوسرے مردوں کے ساتھ کھیتوں میں کام کرنا بھی ناجائز ہو جائے گا۔
مشرق وسطیٰ کے اسی ملک کا جہاں بہت بڑے مفتی صاحب نے عورتوں کی شیطانیت عیاں ہونے کی بات کی ہے، ایک واقعہ ہے جو کچھ عرصہ قبل رپورٹ ہوا۔ ایک خاتون نے قانون کی ’’خلاف ورزی‘‘ کر کے، چھپ کر، ڈرائیونگ سیکھ لی، وہ اپنے میاں کے ساتھ کار میں سفر کر رہی تھی۔ میاں کو دل کا دورہ پڑا اور بے ہوش ہو گیا۔ خاتون نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور نزدیک ترین آبادی تک، جو بہت دور تھی، گاڑی کو لے آئی جہاں اس کے شوہر کو بروقت طبی امداد مل گئی۔ اِسی پاکستان میں ہزاروں بیٹیاں ہیں جو بوڑھے ماں باپ کی خدمت کر رہی ہیں۔ گاڑی چلا کر انہیں ہسپتالوں میں لاتی ہیں۔ واپس لے جاتی ہیں۔ گھر کا سودا سلف خریدنے جاتی ہیں۔ بیمار شوہروں کو ڈاکٹروں تک پہنچاتی ہیں۔ بچوں کو سکولوں تک لے جانے اور واپس لانے میں مصروف و مجبور شوہروں کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ مگر افسوس! یہ سب کام کرنے کے لیے جب وہ گاڑی چلاتی ہیں تو ان کی شیطانیت عیاں ہو جاتی ہے، اِنّا للہ وانا الیہ راجعون!
آغا خان یونیورسٹی کی حلف برداری کی تقاریب میں رفیدہ اسلمیہ کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ آئر لینڈ کا ’’رائل کالج آف سرجری‘‘ ہر سال یونیورسٹی آف بحرین کے شعبۂ نرسنگ کے بہترین طالب علم کو ’’رفیدہ اسلمیہ پرائز‘‘ دیتا ہے۔ یہ رفیدہ کون تھیں؟ عہدِ رسالت کی مشہور نرس تھیں، جن کا ہر خیمہ ہر جنگ میں ’’موبائل ہسپتال‘‘ کا کام دیتا تھا۔ سعدؓ بن معاذ زخمی ہوئے تو رسالت مآب نے انہیں رفیدہؓ کے خیمے میں بھجوایا ،رفیدہؓ خزرج قبیلے سے تھیں۔ سعدؓ اوس سے تھے۔ کیا وہاں یہ بحث ہوئی تھی کہ محرم ہیں یا غیر محرم؟
گیارہ کروڑ پنجروں کا آرڈر دیجیے، کمیشن کی رقم اچھی خاصی بنے گی!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“