سوچوھے کھا کر بلی حج کو چلی
عمران خان کی 62/63 کی حمائیت اور مستقبل
عمران خان نے تو بلکل کھلے الفاظ میں وہ کہ دیا جو جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق دھمکیوں کی صورت میں 62/63 کو آئین سے نکالنے کی تجویز پر چند دنوں سے دے رھے تھے۔ عمران خان نے شیخ رشید کے لیاقت باغ جلسے میں بہت وضاحت سے بتایا کہ وہ فوج اور عدلیہ کے خلاف ہونے والی سازشوں اور 62/63 کو آئین سے نکالنے کے ایشو پر لاکھوں لوگوں کو سڑکوں پر لائیں گے۔
عمران خان کے ان خیالات سے ان تمام اینکرز اور بائیں بازو کے دانش وروں اور کارکنوں کی ان بارے بچی کچھی خوش فہمیاں کو ختم کر دینا چاھئے جو سمجھتے تھے کہ عمران خان ریڈیکل ہے، بدعنوانی کا خاتمہ چاھتا ہے، اس کا ساتھ دینا چاھیے،
میاں نواز شریف نے عدلیہ کی جانب سے انکو نااھل قرار دینے کے بعد جی ٹی روڈ پر ریلیوں سے خطاب کے دوران عدلیہ اور فوجی مداخلتوں بارے جو تنقید کی اور جس کو بڑے پیمانے پر حمائیت بھی ملی، عمران خان اس کا اثر زائل کرنے کے لئے پہلے سے زیادہ رائیٹ ونگ نظریات کو اپنا چکے ہیں۔ تحریک انصاف ایک رائیٹ ونگ پارٹی مسلم لیگ نواز کے مقابلے میں زیادہ رائیٹ ونگ پارٹی بن کر ابھر رھی ہے۔
عمران خان 2018 کے عام انتخابات میں مزھبی جنونی قوتوں اور مزھبی جماعتوں سے الائنس بنانے کے لئے مزید رائیٹ ونگ خیالات اپنا رھے ہیں وہ دن شائد اب دور نہیں جب وہ ممتاز قادری کو بھی اپنا اور عوام کا ہیرو مان لیں گے، ماضی میں وہ سلمان تاثیر کے گھر تعزیت کرنے بھی گئے اور انکے قتل کے خلاف بھی دلائل دیتے رھے ہیں۔
وہ بے چینی سے اقتدار میں انے کے لئے بے تاب ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ نواز شریف کے نا اھل ہوتے ہی ان کے جشن منانے کے بعد وہ عوام سے مکمل طور پر کٹ چکے ہوں گے۔ اور وہ مظلوم کہلانے کی بجائے ایک بدعنوان نااھل سیاست دان کے طور پر شناخت پائیں گے۔ لیکن مسلم لیگ ن کی جانب سے چالاکی کے ساتھ جی ٹی روڈ ریلیوں میں نواز شریف نے جو مظلومیت کا رونا رویا اس نے عمران خان کی خوش فہمیوں پر پانی پھیر دیا۔ اوروہ مظلوم بن کر ہی سامنے آ رھے ہیں۔
اب رائیٹ ونگ کا مقابلہ رائیٹ ونگ کے ساتھ ہے۔ میاں نواز شریف وہ کچھ عدلیہ اور فوجی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف کہ گئے جو پہلے کبھی سوچا بھی نہ جا سکتا تھا۔ عوام کے جم غفیر نے ان کو اس جگہ سے اگے جانے پر مجبور کر دیا جہاں وہ پہلے موجود تھے۔ بورژوا ریاست کے اداروں پر ایک بورژوا سیاست دان نے اس قدر شدید تنقید شائید ہی کبھی پہلے ان دو اداروں کے خلاف کی ہو۔ حکمران طبقات اپس کی لڑائی میں اب دست و گریبان ہیں وقتی طورپر۔ یہ سلسلہ تو ابھی چلے گا۔
ان کی اس لڑائی میں ہم کوئی خاموش تماشائی نہیں۔ جو بھی سرمایہ دار اداروں کے عوام دشمن کردار کو نشانہ بنائے گا اس کو تنقیدی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اس فریق کو مزید بے
نقاب کرنا ہو گا جو افواج پاکستان کی جانب سے اقتدار سنبھالنے کی راہ ھموار کر رھا ہو۔
عمران خان کی جانب سے 62/63 کی کھلم کھلا حمائیت کے بعد ملک میں موجودمزھبی جنونی عناصر کو مزید تقویت ملے گی۔ اور مسلم لیگ نواز کی جانب سے امرانہ ادوار میں اس قسم کی ائینی ترامیم کونکالنے کا عزم مزید مشکلات کو شکار ہو گا۔ عمران خان کا یہ ایک اھم اعلان ہے بلکل اسی طرح جیسے بھٹو نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں 1977 میں مولویوں کو خوش کرنے کے لئے شراب پر پابندی عائید کی اور جمعہ کی چھٹی کا اعلان کیا۔ انہوں نے یہ اقدامات اس خوش فہمی میں اٹھائے کہ شائد ان سے مولوی خوش ہوں گے اور پی این اے کی رجعتی تحریک ختم ہو جائے گی۔ مگر انکی حکومت اس کے چندماہ بعد ہی فوجی امریت کے ھاتھوں ختم ہو گئی ایک جھوٹے مقدمہ میں انہیں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔
اگر اپ دوسروں کی پچ پر کھیلیں گے تو فائدہ ان کو ھی ہو گا۔ عمران خان مولویوں کے ھاتھوں کھیل رھا ہے۔ عمران خان اور ان کے اردگرد سارے خود کلین شیو ہیں مگر اندرونی طور پر ملا بنے ہوئےہیں۔ وہ اب پیروں فقیروں کے چکر میں بھی ہیں۔ پاک پتن میں انہوں نے کوئی عورت پیر بھی ڈھوندی ہوئی ہے۔ شائدماضی میں کئے گئے گانھوں کا کفارہ ادا کرنے میں تیزی دکھا رھے ہیں یہ محاورہ ایسے ہی سیاست دانوں کے لئے لکھا گیا
سوچوھے کھا کر بلی حج کو چلی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔