گاؤں جانے والی سڑک زیر تعمیر ہے۔ فیصل آباد سے نکل کر ساٹھ ستر کلو میٹر چلا تو آگے مشینیں سڑک کی کُھدائی کر رہیں اور راستہ مکمل طور پر بند تھا۔
گاڑی ریورس کر کہ چند قدم پیچھے بَکائن کے درخت نیچے لگائی۔ ساتھ ایک چائے والا دو تین بنچ رکھ کر بیٹھا ہوا۔ چائے کا کہہ کر ایک بِنچ سنبھالا اور چوکڑی مار کر بیٹھ گیا۔
پندرہ ، بیس فٹ چوڑی سڑک تھی۔ میرے سامنے سڑک کے پار ایک گھر کا دروازہ کُھلا اور تین چار سال کی ایک بچی نے نکل کر دائیں بائیں نظر دوڑانا شروع کر دی۔
ساتھ ہی ایک قُلفی والا سائیکل پکڑے درخت نیچے کھڑا سَستا رہا تھا۔ اُس نے بچی دیکھی تو فوراً سڑک پار کر کہ بچی پاس جا کر قُلفی کی آواز لگانا شروع کر دی۔ ابھی بچی اُسے قُلفی کا کہہ رہی اور وہ بچی کو کہہ رہا کہ دس روپے لاؤ تو قُلفی ملے گی۔
تب تک مکان کے اندر سے چوبیس پچیس سال کی ایک لڑکی نکلی، شاید بچی کی والدہ تھی۔ اُس نے بچی کو کہا کہ اِسکی قُلفی اچھی نہیں ۔ گندی ہے۔ اَندر چلو۔ دوسرا قُلفی والا آئے گا تو لے لیں گے۔ لیکن بچی یہ ماننے کو تیار نا تھی۔ آخر ماں نے بچی کو اُٹھایا اور دھڑام سے دروازہ بند کرتی بچی کو کَوستی اندر لے گئی۔
میں چائے پی چُکا تھا لیکن تَب تک راستہ کلئیر نا ہوا اور میں وہیں بیٹھا رہا۔ چند منٹ بعد ٹَن ٹَن بجاتا ایک دوسرا قُلفی والا آیا اور قُلفی لے لو قُلفی۔ دس روپے دی قُلفی کی آواز لگانا شروع کر دی۔
بَچی آواز سُن کر پھر باہر نکلی اور قُلفی قُلفی کی ضِد شروع کر دی۔ قُلفی والا بچی سے دس روپے مانگے لیکن بچی پاس پیسے نہیں تھے۔ بچی کی ماں یہ سب سُن کر باہر آئی۔ بچی کو دو جھانپڑ لگائے اور بولی۔
وَڈی آئی نواب کالا باغ دی پوتَری۔ کھانے کو روٹی نہیں اور تو قُلفیاں مانگتی ہے۔ چل اَندر دَفع ہو۔
مُجھے یوں لگا جیسے اِس وقت اِس تین چار سالہ معصوم بچی کی تمام دنیا کی کُل قیمت دس روپے تھی جِسے وہ خرید نا سکی۔