محسن انسانیت ﷺمکہ کی وادیوں میں اعلائے کلمۃ الحق کی کاوشوں کے بعد طائف کی طرف سدھارگئے،اس امیدسے کہ یہاں شایدکچھ لوگ میسرآسکیں اور اقامت دین کی جدوجہدکامیاب و کامران ہوچکے۔اہل طائف جس رویہ سے پیش آئے وہ ایک تاریخی تلخ حقیقت ہے۔محسن انسانیت ﷺکے سرپر لگنے والے پتھروں سے رسنے والا خون نعلین مبارکیں میں جمع ہورہاتھا۔سوزوگدازاس قدرتھاکہ زبان مبارک سے جو دعا مانگی اسے ”دعائے مستضعفین“کے نام سے یادکیاجاتاہے،شاید حیات مبارکہ میں یہ پہلااوراآخری موقع تھاجب آپﷺ نے اپنے رب سے اپنی بے بسی کاشکوہ کیاتھا۔ایک روایت کے مطابق یہ دن یوم احدسے بھی زیادہ بھاری تھا۔دعامانگ کر اٹھے توسامنے ”قرن الثعالب“کی پہاڑی تھی،اوپرنظراٹھائی تو بادل آپﷺپر سایہ فگن تھا۔بادل کوغورسے دیکھاتواس میں جبریل علیہ السلام آپ سے مخاطب تھے کہ اللہ تعالی نے آپ کی مناجات سن لی ہیں اورفرمارہے تھے یہ ملک الجبال کو اللہ تعالی نے آپﷺ کی طرف بھیجاہے۔بادل گرجااوراس میں سے ملک الجبال نے آپﷺ سے عرض کی کہ حکم دین توطائف کے دونوں پہاڑ ملاکر اس قوم کو نیست و نابودکردوں؟؟؟رحمۃ اللعالمین نے جوکچھ فرمایا وہ صرف آپﷺ کے ہی شایان شان تھا،کہ اہل طائف ایمان نہیں لائے توکیاہوا، مجھے اللہ تعالی کی ذات پریقین ہے کہ ان کی نسلوں میں فرزندان توحیدضرورجنم لیں گے۔محمدبن قاسم ؒاہل طائف کی نسل سے تھا شایدجس کے سبب میرعربﷺ کو مشرق سے ٹھنڈی ہواآتی تھی۔اگرچہ سب کچھ نوشتہ تقدیرمیں مرقوم ہے تاہم برسرتفہیم اگراس وقت اہل طائف کو تباہ و بربادکردیاجاتاتوتوآج ہم بھی رام رام کہتے ہوئے کسی ذی روح سے مشابہہ پتھرکی بے جان مورتی کے سامنے سربسجودہوتے،نعوذباللہ میں ذالک۔
10رمضان المبارک برصغیرکے لیے ایک خوش بخت تاریخ ہے کہ اس دن اللہ تعالی نے سترہ سالہ نوجوان محمدبن قاسم کے ہاتھوں یہاں کے باسیوں کے لیے اسلام کادروازہ کھول دیا۔10رمضان المبارک92ھ بروزجمعۃ المبارک کوسندھ کے ساحلوں پر کفروشرک سے آلودہ افواج اور نورتوحیدسے مزین لشکررشدوہدایت کے درمیان گھمسان کامعرکہ ہواجس میں اللہ تعالی نے مجاہدین حق کو فتح و سربلندی سے ہمکنارکیا اور راجہ داہر قتل ہو کر راندہ درگاہ ہوا،اوریوں سرزمین ہندوستان دارالکفرسے دارالاسلام میں تبدیل ہوگئی،الحمدللہ۔مورخین کے مطابق اس وقت کے کل علاقہ بلوچستان،وادی سندھ اور سرزمین پنجاب جو کم و بیش آج کی ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حدود پر مشتمل تھی سلطنت امویہ دمشق کی قلمرومیں شامل ہوگئی۔اسی لیے قائداعظم محمدعلی جناح ؒ نے کہاتھاکہ پاکستان اسی وقت بن گیاتھاجب یہاں کا پہلا مقامی باشندہ مسلمان ہواتھا۔محمدبن قاسم سندھ سے ملتان کی طرف پیش قدمی کرتاہوابڑھتاچلاجارہاتھا اوراس کے ارادے میں پوراہندوستان شامل تھااورقریب تھاکہ برہمن راج بھی تاراج ہوکر عساکراسلامیہ کے سامنے ڈھیرہوجاتااور چین کے صحرائے گوبی کی قتیبہ بن مسلم کی قیادت میں فاتح مسلمان افواج اور ہندوستان کی فاتح مسلمان افواج میکموہن لائن پرآن ملتیں کہ مرکزخلاف سے محمدبن قاسم کو طلب کرلیاگیااوریہ کاروائی نامکمل رہ گئی۔
سندھ کاراجہ داہر یہاں کے ظالم ترین حکمرانوں میں سے تھا۔اس نے خلق اللہ پرارض اللہ تنگ کی ہوئی تھی۔حضرت علی کرم اللہ وجہ کے ایک قول کے مطابق کفرسے توحکومت رہ سکتی ہے لیکن ظلم سے حکومت باقی نہیں رہ سکتی۔چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ ایسے ظالم حکمرانوں پر اللہ تعالی کاکوڑا بڑی سختی سے برستاہے۔راجہ داہر کی دست درازیوں سے اس کے ہم وطن اورہم مذہب توتنگ تھے ہی،اس کے پڑوسی بھی اس کی چیرہ دستیوں سے سخت نالاں تھے۔ستم ظریفی یہ کہ راجہ داہر قریب کی سب سے بڑی ریاست ایران کابھی کاسہ لیس تھا،چانچہ وہاں بھی دادرسی کی کوئی سبیل نظر نہیں اتی تھی۔چنانچہ مظلوموں کے لیے ایک ہی راستہ تھا کہ اس وقت کہ سلطنت دمشق کے سامنے نالہ و فریادلے کر جائیں کہ اس ظالم بادشاہ سے ان کی جان خلاصی کی جائے۔چنانچہ اس طرح کی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ اس وقت کی مستندتاریخ ”چچ نامہ“کے مطابق راجہ داہر کی سلطنت کے بدھ بھگشووں نے حجاج بن یوسف کے ساتھ خطو کتابت کی،اپنے وفودبھیجے اور پرزوردرخواست کی انہیں راجہ داہر کے ظلم وستم اور آئے دن کی دست درازیوں اور بے وجہ قتل و غارت گری سے نجات دلائی جائے۔ایک خط میں توانہوں نے براہ راات سندھ پر حملے کی دعوت بھی دے دی۔راجہ داہرکے بحری قزاقوں نے بھی بحری تجارتی راستوں پر انت مچارکھی تھی اور راجہ کے ہاں ان کی بدمعاشیوں کی کوئی شنوائی نہیں تھی بلکہ بھاری بھرکم تحفوں کے عوض سمندری حدودمیں لوٹ مار کی عام اجازت دی ہوئی تھی۔
ان حالات میں ایک فیصلہ کن واقعہ درپیش ہوا۔لنکاکاراجہ اپنے اخلاق کے باعث خلیفہ کے اچھے دوستوں میں شمارہوتاتھا،اس کی وجہ لنکااورعرب کے قبل ازاسلام تجارتی تعلقات بھی تھے۔طلوع اسلام اورعروج اسلام کے بعد لنکاکے کے راجہ نے تعلقات میں بڑھوتری کے لیے ایک جہازمیں قیمتی تحائف خلیفہ کوارسال کیے۔اسی جہازمیں کچھ مسلمان بھی فریضہ حج کی ادائگی کے لیے سوارتھے اور خواتین اسلام بھی ان کے ہم رکاب تھیں۔راستے میں راجہ داہرکے قذاقوں نے ان کے ساتھ اپناروایتی مذکورہ سلوک کیا۔راجہ داہرسے سفارتی سطح پرمعمول کے مطابق درخواست بھی کی گئی لیکن اقتدارکے نشے میں بدمست یہ حکمران ٹس سے مس بھی نہ ہوا۔تب حجاج بن یوسف نے اپنے بھتیجے عمادالدین محمدبن قاسم کو چھ ہزارسپاہ کے ساتھ ظالم کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔لشکراسلام سمندروں کاسینہ چیرتے ہوئے مکران موجودپنج گور کے ساحلوں پر لنگراندازہوااورمنصوبے کے مطابق خشکی کے راستے یہ نوجوان میرسپاہ اپنے لشکریوں کے ساتھ سندھ کی حدودمیں داخل ہوگیا۔دیگر سامان حرب کے ساتھ اس فوج میں ”عروسی“نامی ایک منجنیق بھی تھی جس کو چلانے کے لیے پانچ سومردان جنگی درکارہواکرتے تھے۔چھوٹی موٹی لڑائیوں کے بعد راجہ داہر کے ساتھ اس کافیصلہ کن معرکہ 10رمضان کو پیش آیا۔کیاحسن اتفاق ہے اوربرصغیرکے مسلمانوں کی خوش نصیبی ہے کہ فتح مکہ اور فتح ہندوستان دونوں ایک ہی تاریخ اورایک ہی دن کو واقع ہوئے۔
سخت،جابراورقاہربادشاہ کے بعد جب یہاں کی عوام نے محمدبنقاسم جیسا مرقع حسن خلق حکمران دیکھاتو وہ اس نوجوان کے بہت گرویدہ ہوگئے۔چارذاتوں میں منقسم معاشرت کے لئے یہ ایک انہونی اور غیرمانوس بات تھی کہ سب لوگ ایک ہی صف میں عبادت کررہے ہیں،ایک ہی دسترخوان پر کھاناکھارہے ہیں اور ایک ہی بڑے برتن میں باری باری منہ لگاکر پانی پی رہے ہیں اور انہیں یقین ہی نہ آتاتھاکہ عورتوں کے ساتھ اس طرح بھی حسن سلوک سے،نرمی اور محبت سے پیش آیاجاتاہے۔محمدبن قاسم نے عدل و انصاف کوپہلی دفعہ ہندوستان میں متعارف کرایا،سیدالقوم خادمھم کے تصورکو ہندوستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ کارگردیکھاگیا۔محمدبن قاسم نے بحیثیت والی ہندوستان ایک حکم نامے کے ذریعے تمام ناجائز لگان ختم کردیے،رعایاکی آسودگی اورراحت کے سامان پیداکیے مجرموں کوقرارواقعی سزائیں دیں،ریاست میں امن و امان کو یقینی بنایا اور اپنے دروازے ہر خاص و عام کے لیے مستقل کھولے رکھے۔اس وقت کی تاریخی روایات میں مفتوح عوام کو غلام بنالیاجاتاتھا،ان کی عورتوں سے زبردستی کی جاتی تھی،فاتحین کے لیے کوئی ضابطہ،قانون اور سلیقہ نہیں ہواکرتاتھا،چادراورچاردیواری کے تقدس نام کی کوئی چیزنہ تھی،اجڈ،گنواراورجاہل و وحشی فوجیوں کے ریوڑ کے ریوڑ آبادیوں میں گھس کرقتل و غارت گری کرتے اور بلادریغ گھروں میں گھس کر لوٹ مار اور چوری ڈکیتی کیاکرتے تھے۔لیکن محمدبن قاسم نے اس سے کلیۃ جدانقشہ کھینچاتھا۔چنانچہ مورخین لکھتے ہیں ہیں لوگوں نے محمدبن قاسم کی مورتیاں بناکر ان کی پوجاشروع کردی تھی۔اسی لیے یہاں رہ جانے والے مسلمان سپاہیوں نے مقامی لوگوں میں شادیاں کیں اورانہیں شرک اورتوحیدکافرق سمجھاکر مسلمان کیا۔
محمدبن قام بلاشبہ برصغیرکے مسلمانوں کانہیں بلکہ کل باسیوں کامحسن اورمشاہیر(ہیروز)میں سے ہے۔سیکولریورپی مورخین نے محمدبن قاسم سمیت تمام فاتحین کو زبردستی عرب فاتحین بنانے کی کوشش کی ہے حالانکہ وہ مسلمان فاتحین تھے۔اس وقت کی افواج میں عربوں کے ساتھ عجمی ودیگرغیرعرب مسلمان بھی ایک کلمے والے جھنڈے کے نیچے ظلم کے خلاف قتال کیاکرتے تھے۔طارق بن زیادسمیت متعددمایہ ناز فوجی فاتحین غیرعرب تھے اورصرف مسلمان ہونے کے ناطے باہم شیروشکرتھے۔اس وقت کے مسلمان عرب حکمرانوں نے کل مسلمانوں کوکلمے کے نام پر جمع کیااورخلافت قائم کرکے دنیامیں عزت پائی۔آج کے سیکولرعرب حکمرانوں نے عرب قومیت کانعرہ لگاکر خلافت کو ختم کیااور دنیامیں ذلیل و خوارورسوا ہوگئے۔اس وقت کے مسلمان عرب حکمران رقم کے عوض غلام خریدتے تھے اوران پر مال خرچ کرکے انہیں دین اسلام اورامت مسلمہ کاہمنواوجاں نثار بنادیتے تھے۔آج کے سیکولرعرب حکمران خطیرمال کے عوض اپنے آقاؤں کوخریدتے ہیں اوران پر مال خرچ کرکرکے ان کواپنی امت مسلمہ سے دشمنی اوریہودونصاری سے وفاداری کایقین دلاتے ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...