میانوالی سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر، استاذ، محقق، اعلی پائے کے نثر نگار اور گراں مایہ کتب کے خالق جناب سید نصیر شاہ 10 جون 1932 کو پیدا ہوئے.
سید نصیر شاہ نے اسلام اور جنسیات، چند شامیں فکر اقبال کے ساتھ اور اس جیسی اعلی سطحی تحقیقی کتابیں تخلیق کیں۔ کئی شعرا کے استاذ تھے۔ فارسی، عربی اور اردو زبانوں پر غیر معمولی دسترس حاصل تھی۔کونین فروش کے قلمی نام سے مزاحیہ کالم لکھے… ان کے کالم کا مستقل نام”کڑوے گھونٹ“ تھا…..
”سید نصیر شاہ بیک وقت ایک کامیاب استاد، باشعور سیاسی کارکن،حق گو وہ بے باک صحافی،منفرد تاریخ نگار و تنقید نگار، اعلیٰ پائے کے شاعر اور نثر نگار، بہترین افسانہ نگار‘ سچے اور کھرے محقق اور انسان دوست رویوں کے حامل شخص تھے.
آپ کا انتقال 20 دسمبر 2012 کو میانوالی میں ہوا ۔ انہیں ان کے آبائی شہر میانوالی میں سپرد خاک کیا گیا۔
سید نصیر شاہ صاحب ایک جامع حیثیات شخص تھے۔ وہ ایک مذہبی سکالر بھی تھے۔کسی زمانے میں انہوں نے مذہب کے بہت سے موضوعات پر کتابیں بھی لکھیں۔ انہوں نے بعد میں زندگی کو ترقی پسند حوالوں سے سمجھنا شروع کیا اور مارکسزم اور لینزم کو صرف سمجھا ہی نہیں ترقی پسند پارٹیوں سے وابستہ ہو کر بے انتہا فیلڈ ورک بھی کیا۔ سیاسی میدان میں خوب سر گرم رہے۔انہوں نے مغربی اور مشرقی ادب کا بھی بھرپور مطالعہ کیا ادب کی تمام اصناف پر کام کیا۔ تاریخ اور تاریخی تحقیق بھی ان کا ایک بڑا حوالہ ہے۔تاریخ سے میری مراد تاریخ کے تمام شعبے ہیں انہوں نے دنیا بھر کے فلسفے کو بھی چھانا ہے اور اس کا محاکمہ بھی کیا ہے۔اسی سبب شاعری کے متعلق ان کا رویہ ذرا سا غیر مناسب ہوتا گیا ۔وہ شاعری کو فضائل ، علم میں کم تر اور آخری درجے کی فضلیت سمجھنے لگے۔اس لئے انہوں شعوری طور پر شاعری کو نہیں اپنایا مگر شاعری انہیں اپناتی چلی گئی۔انہوں نے بہت شاعری کی مگر بہت سی شاعری ’’دوستوں کی نذر ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام:
سوختہ کشتی کا ملبہ میں مرا دل اور شام
غم زدہ اترے ہوئے دریا کا ساحل اور شام
رات کے اک پیش رس تارے کی دھڑکن تیز تیز
آنکھ میں سہمے ہوئے خوابوں کی جھلمل اور شام
خستگی سے چور پاؤں حسرتِ واماندگی
کہر میں ڈوبی ہوئی موہوم منزل اور شام
آشیاں میں منتظر بچوں کا کرب افزا خیال
رشتہ برپا طائروں کا رقصِ بسمل اور شام
میں یہ کاغذ اور اشک آلود شعروں کا نزول
ایک وادی ایک چشمے کی ترل رل اور شام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو بھی تخت پہ آ کر بیٹھا اس کو یزدان مان لیا
آپ بہت ہی دیدہ ور تھے موسم کو پہچان لیا
جب بھی تھکن نے کاٹ کے پھینکا دشت گزیدہ قدموں کو
جلتی ریت پہ کھال بچھائی دھوپ کا خیمہ تان لیا
اپنی انا کا باغی دریا وصل سے کیا سرشار ہوا
اس کا نشاں بھی ہاتھ نہ آیا سارا سمندر چھان لیا
قسمت کے بازار سے بس اک چیز ہی تو لے سکتے تھے
تم نے تاج اٹھایا میں نے غالب کا دیوان لیا
ذات صفات سے عاری ہو تو کیسا تعاون خارج کا
آنکھ تو تھی نابینا ، ناحق سورج کا احسان لیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی بھی لفظِ عبرت آشنا میں پڑھ نہیں سکتا
بصیرت کو نجانے کیا ہوا میں پڑھ نہیں سکتا
سمندر نے ہوا کے نام اک خط ریگِ ساحل پر
کسی مردہ زباں میں لکھ دیا میں پڑھ نہیں سکتا
یہ انسانوں کے ماتھے تو نہیں کتبے ہیں قبروں کے
ہر اک چہرے پہ اسکا مرثیہ میں پڑھ نہیں سکتا
خدا نے دان گیروں کے پروں پر بھی نفاست سے
کسی مرموز خط میں کچھ لکھا میں پڑھ نہیں سکتا
زمیں و آسماں ، سورج، ستارے، چاند، سیارے
کتابِ دائرہ در دائرہ میں پڑھ نہیں سکتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک ادھورا چاند آدھی شب کا ادھ پیلا بدن
ادھ کھلی کھڑکی ، ادھورا شعر اور آدھا بدن
ویسے اس عہدِ گرانی میں ہر اک شے ہے گراں
ایک میرا فن ہے ارزاں اور اک تیرا بدن
ساونی برسی نمو کی قوتیں پاگل ہوئیں
اور اک ململ کی کرتی سے چھلک اٹھا بدن
کونسا تھا عیب جس کو ڈھانپنا مقصود تھا
میں نے اپنی ذات پر کس واسطے اوڑھا بدن
چاہئے تھا سوچ کا بھی ذکر بیع نامہ میں ہو
آدمی تم نے خریدے تھے مگر مردہ بدن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب بند ہو گیا ہے تجسس کا باب بھی
کتنا ہے لاجواب مرا انتخاب بھی
صحرا نشان ِ پا کے تحیر میں گم ہوا
کچے گھڑے میں ڈوب گیا ہے چناب بھی
کوئی گنہ بھی کر نہیں پائے باہتمام
ان حسرتوں کا دینا پڑے گا حساب بھی
خود زندگی بھی کربِ جہنم سے کم نہ تھی
اور اس پہ پھر شعور کا دوہرا عذاب بھی
نازل ہوئے ہیں مجھ پہ قلم اور خواب بس
پیغمبروں پہ اتری تھی جامع کتاب بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیب و گریباں سی لینے میں دیوانہ مصروف ہوا
ان کی گلی میں آنا جانا مدت سے موقوف ہوا
ہاتھ کٹے تھے،ہونٹ سلے تھے سوچ بھی اب پتھرائی ہے
پہلے بدن مفلوج ہوا تھا ذہن بھی اب ماؤف ہوا
کومل کرنیں پیتے رہنا کونپل کی معراج ہوئی
رنگوں کا طوفان تھا کیسے غنچوں میں ملفوف ہوا
شہرت کا یہ راز ہمیں تو آج کہیں معلوم ہوا
زر کا زینہ چڑھنے والا نگر نگر معروف ہوا
ذکر تھا جس میں اپنے لہو کی سرمستی کے موسم کا
وہ اک رنگیں باب تھا جانے زیست سے کیوں محذوف ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساری عمر کی ہمدم ہے شاداب رتوں کی یاد
برسوں کے بے رحم سفر میں کچھ لمحوں کی یاد
کیسا زادِ راہ مسافر لے کے گیا ہے ساتھ
اک کھڑکی سے جھانکنے والی دو آنکھوں کی یاد
جیون کی اندھیر مسافت میں دمساز رفیق
ان ہونٹوں سے صادر ہوتی کچھ کرنوں کی یاد
ریشم ریشم رستے ہوں تو چلتے ہیں مد ہوش
چوٹ لگے تو آ جاتی ہے پھر ماؤں کی یاد
جن میں کاشت کئے تھے ہم نے ہیرے اپنے اشکوں کے
اپنی تو جاگیر رہی ہے ان گلیوں کی یاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسبِ فرمان ِ امیر قافلہ چلتے رہے
پابجولاں دیدہ و لب دوختہ چلتے رہے
آپ کیا ہم خود بھی سن پائے نہ دل کی دھڑکنیں
اپنے سینے پر قدم رکھ کر سدا چلتے رہے
شہر کی لمبی سڑک پر پھینک کے اپنے قلم
احتجاجاً شہر کے دانش سرا چلتے رہے
بے بصیرت منزلیں گردِ سفر ہوتی رہیں
اور ہم بے مقصد و بے مدعا چلتے رہے
فصلِ گل کی چاپ تھی اس طبع ِ نازک پر گراں
تھا سفر خوشبو کا غنچے بے صدا چلتے رہے
کاجلی راتوں میں سورج کے حوالے سو گئے
اقتباس اپنے لہو سے لے لیا چلتے رہے
سوئے منزل پیٹھ تھی آوارگی جا ری رہی
فاصلہ ہر گام پر بڑھتا رہا چلتے رہے
جب یہ دیکھا پیرہن کا تار تک باقی نہیں
کر کے زیب ِ جسم زخموں کی قبا چلتے رہے
طے کہاں ہوتی مسافت تھا بڑا اندھا سفر
زندگی بھر دائرہ در دائرہ چلتے رہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے باقی ماندہ پتھر میری قبر پہ دھرنے آئے
زیست پہ احساں کرنے والے موت پہ احساں کرنے آئے
کیسی حکمت کیسی دانش بے مقصد تخلیق ہوئی
اس دنیا میں آنے والے۔آئے کیوں۔ بس مرنے آئے
سارے رنگ دھنک کے آ کر تیری آنکھ میں ڈوب گئے
شوخ تخیل ، کومل عنواں میرے پاس نکھرنے آئے
لاکھ شعاعیں بانٹے لیکن سورج کا نقصان نہیں
میرے خواب ثمر ہیں تازہ کوئی جھولی بھرنے آئے
کون آیا سنگین چٹانیں کس کی خاطر چٹخ گئیں
کس کے استقبال کی خاطر ان آنکھوں میں جھرنے آئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دور کہیں اک تارہ ٹوٹا ، یاد کے دشت میں آگ لگی ہے
راکھ کے ڈھیر میں آسودہ تھی ، جو چنگاری چونک اٹھی ہے
چاند سسک کر سوچ رہا تھا کیا انجام دئیے کا ہو گا
رات کی کشتی دھڑکن دھڑکن ہچکی لے کر ڈوب گئی ہے
پھول خزاں کی وحشت خیزی سہتے سہتے خاک ہوئے
اک کاٹنے پہ پاگل تتلی بیٹھی جھولا جھول رہی ہے
آس کی ڈوری تھام کے پگلی اندھے غار میں چلتی گئی
واپس آنے کا جب سوچا دیکھا ڈوری ٹوٹ چکی ہے
دانش کے پُر پیچ سفر میں سوچا تجھ کو بھول گئے ہیں
گردش کی زنجیر ہے ایسی سامنے پھر وہ تیری گلی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم اندھیروں میں اجالوں کے سفیروں کی طرح
کچھ حوالوں کی طرح چند نظیروں کی طرح
وہ جو ڈوبے تھے مرے سوچ سمندر میں کہیں
اب ابھر آئے ہیں بے چاپ جزیروں کی طرح
بندگی میں بھی ہیں اندازِ خدائی موجود
زندگی کون کرے ہم سے فقیروں کی طرح
یوں ہوا جیسے ہو سسکی کوئی سناٹے میں
چاند آتا ہے نظر شب کے اسیروں کی طرح
جسم ہے بستر ِ اطلس پہ مگر ذہن ترا
پارہ پارہ مرے ملبوس کی لیروں کی طرح
تیرا گاؤں میرا قرطاسِ مقدر ہی نہ ہو
تیری گلیاں مرے ہاتھوں کی لکیروں کی طرح
بشکریہ عدیل الرحمان