سترہویں صدی یورپی مہم جوئی کا دور تھا جس میں دنیا کے کئی جزائر دریافت ہوئے۔ 1642 میں پہلی بار تسمانیہ تک رسائی ہوئی۔ یہ آسٹریلیا کے جنوب میں ایک بڑا جزیرہ ہے جو سری لنکا کے سائز کا ہے۔ آج ہوبارٹ یہاں کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ یہاں پر پہنچنے والے پہلے انسان نہیں تھے۔ یہاں پر نو قبائل بستے تھے اور کل آبادی پانچ ہزار تھی۔ یہ ساڑھے دس ہزار سال سے تنہا تھے۔ ایک حیران کن چیز ان لوگوں کے رہن سہن کا طریقہ تھا۔
آج میلبورن سے تسمانیہ تک چلنے والی فیری نو گھنٹے لیتی ہے تو یہاں تک پہنچے کیسے؟ یہاں پر سمندر گہرا نہیں۔ جب پلاسٹوسین کا برفانی دور گزرا تو برف کی وجہ سے دنیا کے سمندروں کا پانی کئی میٹر نیچے تھا۔ یہ آسٹریلیا کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ پچاس ہزار سال قبل انسان آسٹریلیا پہنچا تھا۔ شکار اور قدرتی خوراک پر رہنے والے اس کے جنوب میں تسمانیہ تک پہنچ گئے تھے۔ پگھلتی برف نے ساڑھے دس ہزار سال پہلے اس کو آسٹریلیا سے کاٹ دیا تھا اور یہ الگ ہو گئے تھے۔ آسٹریلیا میں سینکڑوں قبائل آباد تھے۔ تسمانیہ میں رہنے والوں کی تعداد مقابلے میں بہت کم تھی۔ جب تک سمندر میں دور تک سفر کرنے والے بحری جہاز ایجاد نہ ہوئے، انسان اس جزیرے پر قدم نہ رکھ سکا۔ ساڑھے دس ہزار سال کی تنہائی انسانی تاریخ کی سب سے لمبی تنہائی ہے۔ دوسرے انسانوں کے ساتھ ملنا ان کے لئے بری خبر تھی۔
یہاں زراعت نہیں تھی، جانور نہیں پالتے تھے، دھات کا یا ہڈی سے بنے اوزار کا استعمال نہیں تھا۔ مکمل طور پر برہنہ رہتے تھے۔ خواتین کینگرو کی کھال سے بنائے گئے جھولے میں بچوں کو اٹھا کر ساتھ رکھتی تھیں۔ جانوروں کی کھال کا اس کے علاوہ استعمال نہیں تھا۔ پانچ زبانیں بولی جاتی تھیں جو آسٹریلیا میں رہنے والوں سے مختلف تھیں۔
آسٹریلیا کے ایب اوریجنلز ان کے مقابلے میں خاصے مختلف تھے۔ زراعت وہاں بھی نہ تھی۔ کچھ ٹیکنالوجیز جیسا کہ سدھائے ہوئے ڈنگو، بومارینگ وغیرہ تو آسٹریلیا میں ایجاد ہی تسمانیہ کے کٹ جانے کے بعد ہوئے لیکن ایک اور حیرت انگیز چیز یہ تھی کہ تسمانیہ میں رہنے والے کئی ٹیکنالوجیز کو بھلا بیٹھے تھے۔ ایک مثال ہڈی کی سوئی بنانا تھا۔ تسمانیہ سے ملنے والے آثار بتاتے ہیں کہ ایک وقت میں یہ کام یہاں پر کر لیا جاتا تھا۔ لیکن اس فن کو بھول جانے کی وجہ سے یہ کپڑے بھی نہیں بنا سکتے تھے۔ رہائش بنانے کی ٹیکنالوجی میں بھی پیچھے جا چکے تھے۔ بڑی تعداد کسی قسم کی رہائش گاہ میں نہیں رہتی تھی۔
معاشرت اور ٹیکنالوجی ان جگہوں پر تیزی سے ترقی کر سکتی ہے جہاں بڑی تعداد میں انسان ایک دوسرے سے لین دین کر سکیں۔ یہاں رہنے والے باقی دنیا کے انسانوں جتنا بڑا دماغ رکھتے تھے مگر علیحدگی کا نتیجہ یہ نکلا کہ سپیشلائزیشن ختم ہوتی گئی۔ بقا کی جنگ لڑنے والے اپنے فنون اور علوم بھولتے گئے۔ معاشرت تیزی سے ترقی وہاں کرتی ہے جہاں انسانوں کا بڑا نیٹ ورک تجارت کے رشتے سے بندھا ہو۔
چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ، کینسر سپیشلسٹ، سٹیج اداکار، آرکیٹکٹ صرف بڑے شہروں میں ہی کیوں ہوتے ہیں؟ صرف بڑی آبادی ایسی سپیشلائزیشن کو افورڈ کر سکتی ہے۔ جب آپ ہاتھ میں موبائل فون پکڑتے ہیں تو اس ایک آلے کے پیچھے دنیا بھر کے لاکھوں لوگوں کا دماغ ہوتا ہے۔ جب بازار سے ٹوتھ پیسٹ خریدتے ہیں تو بہت سے لوگوں کی محنت کا فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔ یہ جاننے کی ضرورت کے بغیر کہ اس کے پیچھے کون تھا۔ صرف ایک قابل قبول لین دین کے طریقے کی وجہ سے۔ پھر اپنے چمکدار دانتوں سمیت معاشرت کا حصہ بن جاتے ہیں، یہ جاننے کی ضرورت کے بغیر کہ آپ کے کام کا فائدہ دنیا میں کہاں پر اور کون اٹھائے گا۔
پچھلی صدی میں معیشت کے بارے میں کچھ بڑی غلط فہمیوں نے فروغ پایا تھا۔ ان میں سے ایک خود انحصاری کا آئیڈیا تھا۔ دوسرا یہ کہ ایکسپورٹ کوئی ایسی شے ہے جو پسندیدہ ہے اور امپورٹ ناپسندیدہ۔ اس غلط خیال پر بنائی گئی غلط پالیسیاں کئی جگہوں پر بحرانوں کا باعث بنیں۔ تجارت انسانی معاشرت اور ترقی کے لئے سب سے بڑی جدت رہی ہے۔ ہزاروں برس کی تنہائی میں رہنے والے خود کفیل تسمانین اس کا فائدہ نہ اٹھا سکے تھے۔