(Last Updated On: )
مرنے سے پہلے خواتین کی شان میں حمد و ثناء کا نزرانہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ میری توصیف و تعریف کا سب سے پہلا سبب ‘ایریل’ (1) ہے، جو میری اس دیوانگی و سرشاری پر ہنستی ہے اور کہتی ہے کہ مجھے یہ نغمہ ء ستائش اپنے گلینڈز(glands) کے لیے گانا چاہیئے کیونکہ اس کے خیال میں حُسن مرد کے عضویوں کی آنکھ میں ہوتا ہے۔ چلیئے ایسے ہی سہی، آئیے انہی کی قصیدہ گوئی کر لیں۔
جب میں یہ دعوٰی کرتا ہوں تو کوئی یقین نہیں کرتا کہ میں عورت کے حُسن کو اس کے جسم کی طلب کے بغیر بھی سراہ سکتا ہوں یا اس سے متغیر ہوسکتا ہے۔ میرے مطابق میرا تمام تر لگاؤ خالصتاً جمالیاتی ہوتا ہے۔ شاید میں خود کو دھوکا دیتا ہوں، کیونکہ میں اس ہوس کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا جو میرے ‘لاشعور’ میں پوشیدہ ہے یا میرے لہو میں چُھپی ہوئی ہے۔ لیکن پھر بھی جیسا کہ میں بار بار باور کرواچُکا ہوں ، یہی کہوں گا کہ میں نے ہمیشہ عورت کی طرف احترام سے دیکھا اوراس قدر دلکش و خوش ادا ہونے پر اس کا متشکر ہوا، لیکن اس سارے عمل میں کبھی اس پر جسمانی دسترس حاصل کرنے کی خواہش سے مغلوب نہیں ہوا۔ حتٰی کہ کبھی اس کا ہاتھ بھی نہیں چھوا۔ میں حُسن کی ہر شکل سے بے حد متاثر ہوجاتا ہوں، وہ سب لوگ جو سیر و سفر کے دوران میرے ہمراہ ہوتے ہیں میری اس عادت سے بُری طرح تنگ ہوتے ہیں کیونکہ ہر خوش نما اور دلآویز مظہر کو دیکھ کر بے پایاں جوش و خروش کا اظہار کرتا ہوں، نیلگوں آسمان پر سفید بادل یا ایسا م (alyssum) کے شیریں پھولوں کی شہد جیسی خوشبو، یا قریب سے گزرتا ہوا کوئی نوجوان روشن چہرہ، یا کوئی خوش قامت سیدھا ایلم کا درخت اور اس کا روح پرور نظارہ جیسے وٹ میینک (whit manic) کے الفاظ میں اس نے اپنی پھیلی ہوئی شاخوں سے آفاق کو آغوش میں لیا ہو، یہ سب مناظر مجھے مدہوش کرنے کے لیے کافی ہیں۔ جب میں سوچتا ہوں کہ اس جُھومتے گھُومتے سیارے پر حُسن و جمال کے کتنے مظاہر ہیں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ اگر میں سب کو دیکھ پاؤں تو اس کو لافانیت پر محمول کرلوں۔ لیکن شاید ہی کوئی اور انسان عورت کی تخلیق یا ارتقاء میں خداؤں کا شکر گزار ہونے میں میری طرح جزباتی ، سادہ لوح ، بھولا اور معصوم ہو۔
اس خطرناک موضوع پر میں نے شوپنہاور کو پڑھا ہے اور میں جانتا ہوں کہ میرے لاتعداد ہمعصروں نے ان ‘چڑیلوں’ پر کتابوں پر کتابیں سیاہ کر ڈالیں جن میں ان تمام پھندوں، جالوں اور چالوں کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے جن کی مدد سے یہ ہمیں قابو کرتی ہیں اور پھر ہمارے اندر سے زندگی کی آخری بوند تک نچوڑ لیتی ہیں۔ جب میں دیوانگی اور جنون کے دور سے نکل کر فرزانگی میں لوٹا ہوں تو یہ ادراک کر لیتا ہوں کہ متعدد عورتوں میں خامیاں موجود ہوتی ہیں ۔ بہت سی عورتیں حریص ، ملکیت پسند، حاسد اور مغرور ہوتی ہیں۔ وہ طویل رفاقت اور دوستی کی اہلیت نہیں رکھتیں۔ کیونکہ ان کا زیادہ تر وقت محبت کو جیتنے، سنبھالنے اور بانٹنے میں صرف ہوجاتا ہے۔ بہت سی عورتوں کے شوہر ہتھیانے کا فن بھی پایا جاتا ہے، وہ دل اور گھر توڑنے کا ہنر بھی جانتی ہیں۔ بہت کم عورتیں مردوں کی طرح معروضی انداز میں سوچتی ہیں۔ وہ صرف ان چیزوں اور موضوعات میں دلچسپی رکھتی ہیں، جو دلچسپ مردوں سے تعلق رکھتے ہوں۔ وہ اپنی خواہشوں کو ہی حقیقت تصور کرتی ہیں اور تکرار کو دلیل۔ بسا اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان کی عقل دماغ سے نکل کر زلفوں کے بارے میں اُلجھ گئی ہے۔ وہ ایسے خوشامدیوں سے بے وقوف اور اُلو بنا پسند کرتی ہیں جو محض اُن کے انداز و اطوار کوحُسن سے تعبیر کریں اور معمولی مفاد کے لیے عورت کو استعمال کرسکتے ہیں۔ مردوں کی نسبت عورتیں، نجومیوں، عاملوں اور پیروں پر زیادہ ایمان رکھتی ہیں کیونکہ وہ مردوں کے برعکس کارزارِ حیات میں اپنے غم و آلام جلدی اور آسانی سے نہیں بھلا سکتیں۔ انہوں نے مردوں کی نسبت نوعِ انسانی کو بہت کم نابغہ اور دانشوروں کا تحفہ دیا ہے، تاہم مردوں کی نسبت ان میں مورکھ اور خطبیوں کی تعداد بھی کم ہے۔ مردوں میں اقتصادی مسابقت اور سیاسی جوڑ توڑ سے عقل کو جلا ملتی ہے لیکن عورتوں کی ان سرگرمیوں کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی کیونکہ ان کا بنیادی فریضہ مادرانہ کردار ہے، جس میں جبلت کو عقل پر فوقیت حاصل ہے اور وہ ہر وہ چیز جذبات سے جیت لیتی ہیں جسے مرد نے سر کھپا کھپا کر حاصل کیا ہوتا ہے۔
لیکن عورت کی تمام غلطیاں، میں صرف اس بنیاد پر پسِ پشت ڈالنے پر تیار ہوں کہ وہ نسل ِ انسانی کی ماں ہے اور اسے برقرار رکھنے کی ذمہ دار ہے۔ غالباً نسل کو قائم رکھنا بھی اتنا ضروری نہیں، لیکن یہ بھی ایک اور سوال ہے۔ فی الحال میں عورت کو محض ایک لڑکی کے طور پر دیکھنا چاہتا ہوں، جس کی خوبصورتی کو پاکبازی نے چار چاند لگا دیے ہیں اور کچھ کچھ وہ اس امر سے آگاہ بھی ہے کہ تھوڑی ہی دیر بعد شکاری اس کے ارد گرد منڈلانے لگیں گے اور کوئی اسے بیڑیاں پہنا کر قید کرے گا اور پھر وہ صرف نسل کے فروغ کا ذریعہ ہی بن کر رہ جائے گی۔ اس کے کانوں میں قدرتی گلاب ہیں کیونکہ کھیل کود اس کا پسندیدہ مشغلہ ہے، بائیسکل چلانا گھڑ سواری اس کے محبوب ہیں اور جب وہ اپنے کتے کا سر اپنی گود میں دبا کر فرش پر بیٹھی ہے تو بڑے اسے دیکھ کر بہت مسرور ہوتے ہیں۔ اس کے پیار ے پیارے ننگے پاؤں ہوا میں سانس لینے کے لیے آزاد ہوتے ہیں۔ اس وقت میرا دل اس کے لیے کھنچا جاتا ہے جب اس کی نوعمری ختم ہونے والی ہوتی ہے اور نوجوان مرد اس کے اردگرد گھراا ڈالے ہوئے ہوتے ہیں، اس کی نظرِ کرم کی منتظر اس کے ہاتھ یا لبوں کے ایک لمس کے طلبگار اور اس سے کچھ بڑھ کر بھی میں اندازہ کرسکتا ہوں کہ وہ کسی تنگ اور بل کھاتی ہوئی پگڈنڈی پر کھڑی ہوتی ہے اور اسے فلرٹ اور جعلساز لوگوں کے درمیان سے راستہ نکالنا ہوتا ہے۔ بے مصرف معرکوں اور مستقل تنہائی میں سے نکل کر منزل پر پہنچنا کتنا دشوار ہے۔ یہ امر قابلِ حیرت نہیں کہ معتدد پنجہ آزمائیوں کے وہ اپنے اندر ایسی خود پسندی پیدا کرلی ہے اور غیر ضروری اشیاء کو اس طرح چھانٹ دیتی ہے جیسے نر پرندہ مادہ کو آمادہ کرنے سے پہلے رقت نظری سے خود کو جاذبِ نظر بناتا ہے۔ لیکن ہمارے دور میں تو اس پر بوجھ ڈال دیا جاتا تھا کہ وہ متعدد چاہنے والوں میں سے اس کا انتخاب کرے جو اسے محض تعریف و توصیف سے بے وقوف نہ بنائے بلکہ اس میں ضبط، ٹھراؤ اور بیوی بچے پالنے کی اہلیت ہو۔ جو ایک باوقار شوہر اور مشفق باپ ثابت ہوسکے وہ مضبوط اور باشعور بھی ہو اور معاشی طور پر مستحکم بھی۔ اب نوجوان دماغ اور دھڑکتے ہوئے دل پر اتنا بوجھ؟
اب وہ ایک ‘دلہن ہے’ شرمائی لجائی اور مغرور، بالکل اس جواری کی طرح جس نے اپنا تن من دھن صرف ایک چال میں داؤ پر لگا دیا ہے۔ اگر آپ جوانی کی حدود عبور کرچکے ہیں تو یقیناً کسی دوڑ لگانے والے گھوڑے کے حق میں دلائل دے سکتے ہیں، جس کی کھال چمکدار اور نوکیلی ناک ہو، یا اپنے پسندیدہ کتے کو سراہ سکتے ہیں جو بہت خوبصورت سر کا مالک ہوا، جس کی چال متوالی اور آنکھیں ذہین ہوں۔ مجھ پر ایسے لمحات بیت چکے ہیں لیکن واپس آئیے عورت کی طرف۔ امریکی، آئرش، انگریز، فرانسیسی ، اطالوی، جرمن ، سیکنڈے نیوین، پولش، روسی (کیا آپ نے کبھی اینا پافلوفا کو دیکھا؟)، ہندو، مسلمان (کیا آپ نے کبھی عربی اور فارسی کی رومانوی شاعری پڑھی؟) چینی، جاپانی۔۔۔۔ الغرض یہ سب، مختصر ترین الفاظ میں حسن و خوبی اور دلآویز وقار کا پیکر اور معجزہ ہیں۔
اعلٰی تعلیم یافتہ خواتین کی حالت جب وہ اپنے جو بن پر ہوتی ہیں، دیکھ کر مجھے رونا آتا ہے۔ مجھے انکی مخملیں جلد دیکھ کر رشک آتا ہے۔ ان کے ہاتھوں کی بالائی جیسی نرمی اور وہ پھول جیسا لمس جس سے وہ آپ کے چہرے کو چھوتی ہیں اور آپ کی جیبیں جھاڑ لیتی ہیں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ ان کے بالوں میں انگلیاں پھیروں لیکن پھر اندیشہ ہوتا ہے کہ اس درجہ سلیقے سے بنے ہوئے بال بگڑ نہ جائیں۔ میں ان کی آنکھوں میں جھانکنے سے کتراتا ہوں کہ کہیں ان کی گہرائی میں ڈوب ہی نہ جاؤں اور کہیں کچھ ایسا نہ ہوجائے کہ واپسی کا چارہ بھی نہ رہے۔ اظہارِ محبت اور دورانِ نغمہ اس آواز کے زیرو بم سے میں متحیر ہوجاتا ہوں کہ کہیں ارتقاء کے پردے میں خدا خود ہی تو کار فرمانہیں؟ میرے خیال میں عورت کا پیکر ہر زاویے سے خیرو کن اور باکمال ہے خصوصاً اس کے سامنے کے ابھار جو بسا اوقات کمزوری سے لٹک بھی جاتے ہیں۔مجھے عورت کے ٹخنے بہت دلپزیر معلوم ہوتے ہیں اور خاص طور پر اس کے تیز رو پیروں کے ساتھ ان کا تال میل عجب منظر پیش کرتا ہے۔ مجھے اس سنہرے نوکیلے دھاتی ٹکڑے کو دیکھ کر رنج سا ہوتا ہے جو اس کے جوتے پر آویزاں نظر آتا ہے۔ عورت کی چال ڈھال کا وقار گویا یوں ہے جیسے شاعری نے گوشت پوست کا پیرھن اوڑھ لیا ہو۔ میں مدہوش و متحیر ہو کر دیکھتا رہتا ہوں کہ وہ کمرے میں کس قدر روانی اور آسانی سے متحرک رہتی ہے جیسے کسی خاموش اور غیر مرئی بادِ بہار نے اس کے انگوٹھوں کو اپنے جیسا سبک خرام بنا دیا ہو۔
وہ ماں بھی بنتی ہے۔ اب بیس تیس برس کی نئی مشقت اور فکر کا آغاز ہوتا ہے کہ بچے کی تربیت کیونکر ممکن ہو، اسے صحتمند، مہذب اور ذہین کیسے بنایا جائے۔ وہ اس سارے عمل کا بوجھ اور دباؤ برداشت کرتی ہے جس میں کہ اسے بالکل جنم دینے والی دیوی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے وہ خالق ہی کا کردار ادا کرتی ہے، اگر دنیا میں کہیں خدائی ہے تو بس یہیں ہے، عورت میں ہے، کوئی بھی ماہرِ حیاتیات خدا کو صرف نسوانی انداز میں سمجھ سکتا ہے۔ کیونکہ دنیائے حیات میں بالعموم مرد کا کردار مختصر، منفعل اور سطحی ہے۔ کیتھولک اس ضمن میں مادر خداوند کی پرستش کرنے میں قطعاً حق بجانب ہیں۔ بہت عرصے پہلے جب میں نے ایتھل بین ونیوٹا (2) (Ehthel Benonuta) کو جنم دینے کے دوران ‘ایریل’ کے درد کو دیکھا تو میں بے بسی اور شرمندگی کے عالم میں کمرے سے باہر نکل آیا اور اپنے آپ سے کہا، “مجھے ہمیشہ عورتوں سے نرمی سے پیش آنا چاہیئے۔” عورت کی خطا سے درگزر کرنا چاہیئے کیونکہ وہ ہم سب کی مادرِ مہربان ہے، اس کا کیا دھرا اس کے اپنے سر، ہمارے لیے وہ صرف مشفق ماں ہے۔
ماں کو یہ سوال پوچھنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ زندگی کو کوئی مفہوم ہے یا نہیں؟ جب وہ اپنے بچوں کی جسمانی و ذہنی نشوونما کو دیکھتی ہے تو اسے علم ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی تخلیق کا مقصد پورا کررہی ہے اور اس کی تخلیق اپنا نصب العین حاصل کررہی ہے۔ اس کو اس ریاضت کا صلہ اس وقت ملتا ہے جب یہ بچے بچپن کی حماقتوں اور جوانی کے جنون سے گزر کر سمجھدار اور بالغ نظر مرد اور عورتیں اور اپنے بچوں کے ماں باپ بنتے ہیں۔ جب وہ اس بڑھتے پھولتے قبیلے کو اپنے اردگرد دیکھتی ہے تو وہ خاموش تفاخر اور ناقابلِ بیان مسرت محسوس کرتی ہے۔ یہ سب اس کے جسم و روح کا ثمر ہیں اور محض ایک بیمار اور منتشر دماغ ہی اس موقع پر یہ کہہ سکتا ہے کہ عورت کی زندگی کا کوئی مفہوم نہیں۔ ماں کو بچوں سے محبت کرتے اور محبت پاتے دیکھ کر کون یہ بات کہہ سکتا ہے۔ اگر زندگی کو آبرومندی اور بھرپور انداز سے جیا جائے تو یہ خود ہی اپنا انعام ہے، جسے خارج سے کسی پذیرائی کی کوئی ضرورت نہیں۔
(1) Ariel Durant (wife of will Durant)
(2) Ethel Durant (daughter of Will Durant)