جہاں تک سفر نامہ کا تعلق ہے تو یہ علمی و ادبی اعتبار سے بڑی اہمیت رکھتا ہے اور یہ واحد صنفِ ادب ہے جس کا دیگر تمام اہم معاشرتی علوم سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔سوانح نگاروں، جغرافیہ اور تاریخ دانوں نے اس صنفِ ادب سے بہت استفادہ کیا ہے۔چنانچہ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں جس میں اس صنف ادب پر طبع آزمائی نہ کی گئی ہو۔
بایں ہمہ، سفر نامے کے کل فنی محاسن کو پیش نظر رکھا جائے تو اس صنف ِ ادب پر قلم اٹھانا کو ئی آسان کام نہیں بلکہ ہر کسی کے بس کا روگ نہیں کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا۔
تاہم اس صنفِ ادب کو دنیا کی قدیم ترین اصناف میں اہم مقام حاصل رہا ہے۔سفر نامہ نگار دورانِ سفر یا بعد از سیاحت اپنے تاثرات و احساسات اور مشاہدات و تجربات کو احاطہئ تحریر میں لاکر اپنے قاری کو محظوظ کر تا ہے۔
طارق مرز ا صاحب کا گزشتہ دو تین دہائیوں سے صحافت سے گہرا تعلق ہے۔مختلف اخبارارت اور رسائل و جرائد کے ایڈیٹوریل بورڈ کا حصہ ہیں اور کئی اخبارات اور رسائل و جرائد میں کالم بھی لکھتے ہیں۔سیروسیاحت کے شوقین ہیں چنانچہ اب تک انگلینڈ، فرانس، سویٹزلینڈ،جرمنی، ہالینڈ، بیلجیم، ڈنمارک سویڈن، ناروے، فن لینڈ، جاپان، تھائی لینڈ، سنگا پور، سلطنت آف عمان، متحدہ عرب امارات اوردولت قطر کے علاوہ نیوزی لینڈکی سیاحت کرچکے ہیں۔ملکوں ملکوں گھومنے کے شوق نے انہیں سفر نامے کی صنف سے اس طرح جوڑ دیا ہے کہ دورِ جدید کے سفر نامے کا خیال آتے ہی طارق مرزا اور طارق مرزا کا نام آتے ہی سفر نامے کی صنف دل و دماغ میں گھوم جاتی ہے کیونکہ ان کے قلم نے ان کے سیاحتی مشاہدات و تجربات کو قرطاسِ ابیض پراس طرح بکھیرا ہے کہ سفر نامہ اور طارق مرزا ایک دوسرے کے جزو لاینفک ہو گئے ہیں۔
طارق مرزا صاحب کے سفر ناموں پر بات کرنے سے پہلے سفرنامے کی ابتدا کا ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ بس اتنا اشارہ ہی کافی ہے کہ اردو میں سفر نامے کی تاریخ اردو کی تاریخ کی طرح مختصر ضرور ہے لیکن اردو میں بہترین سفر ناموں کی روایت نہایت مستحکم ہے نیز”سفر نامے کا جو سفر یوسف کمبل پوش کے ’عجائب ِ فرنگ‘ سے شروع ہو اوہ مستنصر حسین تارڑ کے سفر ناموں میں عروج پر نظر آتا ہے“ لیکن ان کے بعد سفر نامہ نگاروں کی ایک طویل فہرست نظر آتی ہے جنہوں نے تارڑ کے تتبع میں کئی سفر نامے لکھے۔برِصغیر پاک و ہند کے سفرنامہ نگاروں میں ممتا زمفتی کا ہند یاترا۔ حسن رضوی کادیکھا ہندوستان، قمر علی عباسی کا دلی دور ہے،سید انیس شاہ جیلانی کا سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان، رفیق ڈوگرکا اے آبِ رودِ گنگا،عطاء الحق قاسمی کا دلی دور است، پروفیسر محمد اسلم کا سفرنامہ ہند، رفعت سروش کالاہور سے اجمیر تک،پروفیسر ڈاکٹر محمد رفیق خان کا امریکہ بار بار،رضا علی عابدی کا جرنیلی سڑک،امجد اسلام امجدکا سات دن اور انور سدیدکادلی دور نہیں اہم ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ سفر نامہ لکھا کم اور سنایا زیادہ جاتا تھا۔چنانچہ پاکستان کے شہرپشاور کا قدیم اور تاریخی قصہ خوانی بازاراس کی بہترین مثال ہے جہاں وسط ایشیاء سے آنے والے مسافراور تاجر شام ڈھلے اپنے سفر کی روداداورمشاہدات وتجربات سنایا کرتے تھے۔یوں یہ سفر نامے سینہ بہ سینہ اورنسل در نسل منتقل ہوتے رہتے تھے۔ان سفر ناموں کی مدد سے علاقائی معاشرت اور تہذیب کے ساتھ ساتھ تاریخی واقعات کا بھی علم حاصل ہو تاتھا۔”سفر نامہ”ایک مہماتی اندازِ تحریر ہے جس میں، معاشرت، فطرت اورسیاست نیز سفری مصائب اور تکالیف کا بھی تذکرہ کیا جاتا ہے۔اس سلسلے میں چودھویں صدی کے معروف سیاح ابن بطوطہ کا سفر نامہ،جس کا اردو اور انگریزی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے، میں پاک وہند کے تمدن، معاشرت، سیاست اوربود باش کی عکاسی بڑی باریک بینی سے کی گئی ہے۔
طارق محمود مرزا صاحب کا پہلا سفر نامہ”خوشبو کا سفر“ 2008ء میں جب کہ دودسرا سفر نامہ ”سفرِ عشق“ 2016 ء میں اورتیسرا سفر نامہ”دنیا رنگ رنگیلی“ 2019میں شائع ہوا نیز افسانوں کا مجموعہ بعنوان”تلاشِ راہ“ 2013 ء میں منظرِ عام پر آیا اور اب ان کاچوتھا سفرنامہ ”ملکوں ملکوں دیکھا چاند“منصہ شہود پر آیا ہے۔ان کے سفر نامے ”دنیا رنگ رنگیلی“ کی تقریبِ پذیرائی پالف آسٹریلیا کے زیراہتمام فلنڈرز یونیورسٹی ایڈیلیڈ میں منعقد کی گئی تھی جس میں علم و ادب سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی تھی۔
”ملکوں ملکوں دیکھا چاند“طارق مرزاصاحب کاایک کا میاب ہی نہیں فنی محاسن کی کسوٹی پر پورا اترنے والا سفر نامہ ہے؛ جسے تاریخ اردو ادب میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔میرے خیال میں دورِ حاضر میں ڈاکٹر رفیق خاں کے سفر نامے ”امریکہ بار بار“ کے بعد جس سفر نامے کو ادبی پیمانے پر جانچا جا سکتا ہے وہ طارق مرزا کا یہ سفر نامہ ہے۔
جہاں تک سفر نامے کے فنی محاسن کا تعلق ہے تو اس میں بنیادی طور پر ایک نقاد جو اجزاء تلاش کرتا ہے وہ یہ ہیں کہ:
(1 عمیق مطالعہ
(2 گہرا معائینہ
(3 کامل مشاہدہ
(4 وسیع تجربہ
(5 مدبرانہ محاسبہ
(6 لاجواب مرقع
یوں توطارق مرزا کے چاروں سفر نامے اپنی جگہ اہم ہیں لیکن ”ملکوں ملکوں دیکھا چاند“ محولہ تمام فنی شرائط پوری کرتا ہے۔ علاوہ ازیں ان کے سفر ناموں کی کچھ خصوصیات ایسی ہیں جو انہیں دیگر سفر نامہ نگاروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ ان میں سے چند ایک آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
سب سے پہلے تو منظر کشی اور فطرت نگاری ہے جو طارق مرزا صاحب کے سفر ناموں میں بدرجہ اتم دیکھی جا سکتی ہے۔
ثانیاً طارق مرزا جس ملک بھی جاتے ہیں جب وہاں کی تہذیب و تمدن اوربود و باش کا ذکر کرتے ہیں تو سیاح کم اور مؤرخ زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔
ثالثاً وہ جب کسی ملک کے موسم، روایات اور معاشرتی پہلوؤں کو احاطہ تحریر میں لاتے ہیں تو پاکستان کی تہذیب و تقافت سے موازنہ ضرور کرتے ہیں۔جس کا منطقی مطلب یہ ہے کہ طارق مرزا کے دل میں پاکستان کی گہری محبت رچی بسی ہے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ بے حد اضافہ ہوا ہے۔
رابعاً طارق مرزا کا کمال یہ ہے کہ موقع و محل کی مناسبت سے اشعار ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے ہیں اور شعر ایسے فٹ ہو جاتا ہے جیسے شاعر نے اسی موقع کے لیے کہا تھا۔
خامساًمستصتنسرحسین تارڑ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے قصے کہانیاں بھی اس طرح رقم کرتے ہیں کہ وہ ان کے سفر نامے کی چاشنی بن جاتی ہیں۔
سادساً اگرچہ کردار نگاری سفر نامے کے فنی محاسن کا جزو لاینفک نہیں تاہم طارق مرزا کا فن یہ ہے کہ جس کسی کردار کو اپنے سفر نامے کا حصہ بناتے ہیں اسے قاری کے سامنے مجسماً لا کھڑا کرتے ہیں۔
سابعاًطارق مرزاکے سفر ناموں میں افسانوی ادب کے اثرات تو ہیں لیکن اس قدر نہیں کہ انہیں افسانہ مان لیا جائے بلکہ وہ حقیقت کے پرتو زیادہ ہیں۔
طارق مرزاکا خیال ہے کہ:
؎ کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل
کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا
یہی سفر کا شوق انہیں ملکو ں ملکوں لیے پھرتا ہے۔ان کے سفر ناموں پر تبصرہ کرتے ہوئے ایس۔ ایف۔ گیلانی کہتی ہیں:
”سیاحت کے اعتبار سے ان ممالک کا انتخاب زبردست تو ہے ہی لیکن مصنف کا اندازِ تحریر اُس سے بھی بڑھ کر ہے۔مصنف ان ممالک کا چند دن سیر سپاٹا کرکے واپس نہیں آجاتے بلکہ وہ ایک ایک ایک منظر کو اپنی آنکھ کے کیمرے سے sketchکرتے ہیں اور پھر صفحہ ئ قرطاس پر بڑی ہنر مندی اور خوب صورتی سے بکھیر دیتے ہیں“۔
پروفیسر محمد رئیس علوی تو اس دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے طارق مرزا کو ایک ایسی سند عطا کر گئے جو کسی کسی کے حصے میں آتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ”میں اس بات پر فخر کرتا ہوں کہ میں طارق مرزا کے شہر میں رہتا ہوں “۔
ڈاکٹر علی محمد خاں کہتے ہیں:
”بہر کیف طارق مرزا کا سفر نامہ ”ملکوں ملکوں دیکھا چاند“ منظر کشی، لفظی مرقع کاری، برمحل موازنہ و مقابلہ، عمدہ زبان و بیان، نادر تشبیہات و استعارات اور دلکش اسلوبِ بیان کا ایک ایسا دل آویز مرقع ہے جو اردو سفر ناموں میں ممتاز و مشرف مقام و مرتبے کا حق دار ہے“۔