ضیاء محی الدین 20 جون 1933ء کو برطانوی ہند میں لائل پورموجودہ فیصل آباد، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی زندگی لاہور اور قصور میں بسر کی۔
گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے آسٹریلیا کو عازمِ سفر ہوئے۔
1953ء میں علم وآگہی نیز فن وآرٹ کی تلاش کے لئے برطانیہ کا سفر کیا ،جہاں 1956ء تک لندن میں واقع رائل اکیڈمی آف ڈراماٹک آرٹ میں تربیت حاصل کرنے کے لیےرائل اکیڈمی آف تھیٹر اینڈ آرٹس سے وابستہ ہو گئے۔
خوش لباس،خوش شکل،تعلیم یافتہ اور اردو ادب کی لازوال آواز کے جادوگر ضیاٗ محی الدین ۔ یہ واحد ادبی شخصیت ہیں جن کے پڑھنے اور بولنے کے ڈھنگ کو عالمی شہرت نصیب ہوئی ، آواز کی کھنک ،گنگا جمنی لہجہ ،آواز کا اتار چڑھاو،شعر پڑھنے کا قدیمی و جدید انداز ایسا ہے کہ علم و فکر سے مزین انسان عش عش کر اٹھتا ہے ،دل کرتا ہے وہ پڑھتے رہیں اور ہم سنتے رہیں۔
مشتاق یوسفی لکھتے ہیں کہ” ضیا اگر کسی مردہ سے مردہ ادیب کی تحریر پڑھ لے، تو وہ زندہ ہوجاتا ہے۔ ”
ضیاٗ محی الدین ریختہ کی شان ہیں ۔ جنہیں اردو زبان سمجھ نہیں آتی وہ بھی ضیاٗ محی الدین کے ادبی و شعری رنگ ڈھنگ کے دیوانے ہیں ۔اردو شعر پڑھنے کے نئے اور جدید لہجے کے وہ سچے موجد ہیں ،ضیا محی الدین ریختہ کا دلکش اور شاہکار چہرہ ہیں ۔انہوں نے پاکستان میں اسٹیج شوز کی بنیاد رکھی ۔ایسی قابل اور محترم شخصیت جنہیں ایک انوکھا لہجہ دنیا بھر میں ممتاز کر گیا ۔ضیا محی الدین نام ہے معیار کا ،اخلاق کا ،آواز کا ،علم و فکر کا ،آگہی و شعور کا ،علم و فکر کا ،ایک ایسا عہد ہیں جن کو سن کر انسان محسوس کرنے لگتا ہے کہ وہ بھی تعلیم یافتہ ہے ۔ضیاٗ محی الدین کی ایک فقرے میں تعریف کی جائے تو وہ یہ ہے:شخصیت،آواز اور لہجے کی انفرادیت ،فن و ادب سے محبت ،اسے کہتے ہیں ضیا محی الدین صاحب ۔
ضیا صاحب کے والد کا تعلق بھی علم و تدریس کے شعبے سے تھا ،انہوں نے کی پہلی پاکستانی فلم تیری یاد کی کہانی تحریر کی تھی، یعنی تیری یاد کے وہ مصنف ہیں ،اس فلم کے تمام مکالمے بھی ضیا محی الدین کے والد خادم محی الدین نے تحریر کئے تھے۔
ضیا محی الدین پاکستانی اداکار، پروڈیوسر، ڈائریکٹر اور ٹی وی نشریاتی مقرر ہیں جو اپنے سارے کیریئر کے دوران پاکستانی اور برطانوی سینما سکرین پر نمودار ہوتے رہے ہیں۔ انہوں نے صداکاری و اداکاری کے فن کی تربیت رائل اکیڈمی آف ڈراماٹک آرٹ سےحاصل کی اور پھر یہیں سے صداکاری و اداکاری کا آغاز کیا ۔
1956 میں کچھ عرصے کے لئے وہ پاکستان گئے ،ریڈیو پر صداکاری کی ،کچھ ریڈیو ڈراموں میں فن کا مظاہرہ کیا۔ اس کے بعد وہ یوکے واپس چلے گئے جہان ہدایت کاری یعنی ڈائریکشن کی باقاعدہ تعلیم و تربیت حاصل کی۔
1960ء میں برطانیہ میں عالمی شہرت یافتہ ادیب فوسٹر کے مشہور ناول A PASSAGE TO INDIA کو رائل اکیڈمی برطانیہ میں اسٹیج پر پیش کیا گیا ،تواس اسٹیج ڈرامے میں لہجے کے بادشاہ اور آواز کے جادوگر ضیا محی الدین کو کام کرنے کا موقع ملا ،ضیا صاحب نے اس ڈرامے میں ڈاکٹر عزیز کا کردار ادا کیا تھا،ایسی شانداز اور باکمال پرفامنس دی کہ شائقین حیرت زدہ رہ گئے ۔اب وہ اسٹیج کی دنیا میں سب کی توجہ کا مرکز و محور بن چکے تھے ،انہیں اسٹیج کا لیجنڈ فنکار کہا جانے لگا ۔ہالی وڈ کی دنیا میں بھی ان کا نام بطور ایک فنکار لیا جانے لگا ۔
1962ء میں بننے والی ہالی ووڈ فلم LAWRENCE OF ARABIA میں ضیا محی الدین نے یادگار پرفامنس دی ۔ اس فلم کا شمار ہالی وڈ کی کلاسیکل فلموں میں ہوتا ہے ۔یہ ہالی وڈ فلم انڈسٹری کی نایاب اورمعروف ترین فلموں میں سے ایک ہے ۔ اس فلم کے بعد برطانیہ میں انہوں نے تھیٹر کے کئی یادگار ڈراموں میں لاجواب پرفامنس دی پر انہیں بھرپور پذیرائی ملی ۔ضیا صاحب نے ہالی وڈ کی بہت ساری فلموں میں کام کیا اور شائقین فلم کے دل جیتے۔
ضیا محی الدین کی خواہش تھی کہ وہ پاکستان میں فلم اور اسٹیج کی ترقی کے لئے کام کریں ۔چنانچہ وہ 1970ء میں برطانیہ سے پاکستان آگئے اورپی ٹی وی پر ایک اسٹیج پروگرام کا آغاز کیا ،اس اسٹیج شو کا نام "ضیا محی الدین شو” رکھا گیا ۔بطور میزبان ایسی پرفامنس دی کہ مقبولیت کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ۔اس پروگرام کے ذریعے ضیامحی الدین نے اُردو ادب کی توجیح و تشریح میں اس قدر اہم کردار ادا کیا کہ پاکستانیوں کو اردو زبان سے محبت ہوگئی۔ پہلی مرتبہ انہیں لگا کہ اردو دنیا کی ایسی خوب صورت ترین زبان ہے کہ جس کے لہجے میں الہامی کیفیت ہے ،اسی لئے ضیا محی الدین کو اردو زبان کا سب سے حسین و دلکش لہجہ کہا جاتا ہے۔
ضیامحی الدین نے چند ایک پاکستانی فلموں میں بھی کام کیا ،لیکن پاکستانی فلم انڈسٹری کے کام اور ماحول سازگار نہ ہونے کی وجہ سے فلموں میں بطور فنکار کنارہ کشی اختیار کر لی ۔
ضیا محی الدین کو آرٹس اکیڈمی کا سربراہ مقرر کیا گیا ۔بطور سربراہ انہوں نے اداکاری و صداکاری کے فن کی نشوونما اور ترقی کے لئے بنیادی تخلیقی کام کئے ۔ ضیا محی الدین نے پاکستان ٹیلی وژن سے جو پروگرام پیش کیے ان میں پائل، چچا چھکن، ضیا کے ساتھ اور جو جانے وہ جیتے کے نام سب سے نمایاں ہیں ۔
ضیا محی الدین کی آواز ہی ان کی اصل شناخت ہے ،خوبصورت آواز اور الہامی لہجہ کی وجہ سے انہوں نے وہ مقام پیدا کیا ہے جو آج تک کسی کو نصیب نہیں ہوسکا ۔اردو ادب کے لازوال فن پاروں کو اسٹیج پر اس انداز و لہجے میں پیش کیا کہ دنیا کو اردو زبان سے عشق ہو گیا ۔
2004ء میں انہیں روشنیوں اور رنگوں سے مزین شہر کراچی میں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا جہاں وہ آج بھی ایماندار اور دیانت داری سے تخلیقی کلاسیکل سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
ضیامحی الدین کا نام آتے ہی ان ذہنوں کی سکرین پر 70ء کی دہائی کے ٹی وی ڈرامے اور وہ اسٹیج شوز چلنا شروع ہو جاتے ہیں جن میں کام کرکے ضیامحی الدین نے اپنے فن کا لوہا منوایا ۔
ضیا محی الدین کے اشعار پڑھنے کا انداز و لہجہ پاکستان کے علاوہ بھارت میں بھی بہت مقبول ہے۔ علاوہ ازیں وہ انگریزی زبان کے ادب کو بہت ہی دلکش اور شاندار طریقے سے پڑھتے ہیں۔
80 کی دہائی میں انہوں نے برطانیہ کے شہر برمنگھم میں رہائش اختیار کی اور وہاں فن اور آرٹ کے حوالے سے کام کرتے رہے ۔
2005ء میں حکومت پاکستان نے ضیامحی الدین کو کراچی میں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (NAPA) کی تشکیل کی دعوت دی اور انہوں نے اس اکیڈمی کی بنیاد رکھی جہاں آج بھی آرٹ کے لئے ان کی سرگرمیاں جاری و ساری ہیں۔
ضیامحی الدین کو انگریزی اور اردو زبان کا شہزادہ کہا جاتا ہے ۔ انہوں نے اردو زبان کے نایاب شاعر و فلاسفر مرزا اسداللہ خان غالبؔ کے خطوط جس اندازمیں پڑھے، اُس سے بھی انہیں بہت شہرت ملی۔وہ ایسے باکمال فنکار ہیں جنہوں نے فن کی کئی جہتیں متعارف کرائیں ۔ وہ اعلیٰ درجے کے مرثیہ خواں بھی شمار کیے جاتے ہیں اور اس شعبے میں بھی انہیں منفرد مقام حاصل ہے۔
جن انگریزی ڈراموں میں انہوں نے اپنی اداکاری کی دھاک بٹھائی ان میں ’’ ڈینجرمین، دی ایونجرز مین، ان اے سوٹ کیس، ڈیٹیکٹو ، ڈیتھ آف اے پرنسس ، دی جیول پرائڈ‘‘ ان دی کراؤن اور فیملی سر فہرست ہیں۔
بلاشک و شبہ وہ سر سے پاوں تک صرف ایک تخلیقی فنکار ہونے کےساتھ ساتھ ایک انتہائی شائستہ اور مہذب انسان ہیں جس کی وجہ سے دنیا بھر میں انہیں ایک قابل احترام شخصیت سمجھا جاتا ہے ۔
2012 ء میں انہیں حکومت پاکستان نے ہلال امتیاز سے نوازا ۔
ضیا صاحب پرانے دور کے پی ٹی وی ڈراموں کے مداح ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک کلاسیکل دور تھا اور وہ سنہری دور ضرور ایک دن وآپس لوٹے گا ۔پاکستان فلم انڈسٹری کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس انڈسٹری کو اعلی تعلیم یافتہ ڈائرکٹرز ،میوزیشنز اور کہانی کاروں کی ضرورت ہے جو بدقسمتی سے موجودہ دور میں دستیاب نہیں ،اس لئے فلم انڈسٹری زوال کا شکار ہے ۔
یہ لیجنڈ فنکار 20 جون 2022ء کو بانوے سال کا ہو جائےگا اور اس عمر میں بھرپور زندگی گزار رہا ہے ۔
مجھے یقین ہے کہ جب بھی پاکستان میں آرٹ کی تاریخ لکھی جائے گی ،اس نایاب ہیرے کا نام سرفہرست ہوگا ۔ہمیں فخر ہے کہ ہم عہد ضیا محی الدین میں زندہ ہیں ۔ دعا ہے کہ بہت عرصہ یہ ہمارے درمیان رہیں تاکہ آرٹ کی توجیح و تشریح کا سفر جاری رہ سکے ۔
ضیامحی الدین صاحب کو تحریک توازن اردو ادب اورعالمی ماہنامہ میناراردو کی طرف سے سلام عظیم ۔۔۔۔۔