(Last Updated On: )
میلے ٹھیلے کی روایت دم توڑتی جارہی ہے ۔شہروں میں تو دل کو بہلانے کو بہت سی نئی چیزیں آ گئی ہیں مگر دیہی علاقوں میں میلوں کا سلسلہ قائم و دائم ہے۔ہر عید پر میلے لگتے ہیں ان میلوں میں جہاں دل کے بہلانے کو بہت سی چیزیں ہوتی ہیں وہاں پر سرکس بھی ہوتی ہے ۔آپ میں سے بہت سے لوگوں نے سرکس ضرور دیکھی ہوگی۔اگر سرکس کے اندر جاکر تماشہ نہیں دیکھا تو سرکس سے باہر لگے ہوئے سٹال پر ضرور کچھ دیر کو رکے ہوں گے۔جہاں تماشائیوں کو متوجہ کرنے کے لیے بہت سے اعلانات ہورہے ہوتے ہیں کہ شیر ، گھوڑوں اور ہاتھیوں کے کرتب دیکھیں۔جمناسٹک کا اعلیٰ مظاہرہ دیکھنے کے ساتھ ساتھ جل پری اور پانچ ٹانگوں والے بیل کو پہلی بار دیکھنے کا موقع دیا جارہا ہوتا ہے ۔
ہماری سادہ دل عوام اس نوٹنکی سے متاثر ہوکر آج بھی جل پری اور پانچ ٹانگوں والا بیل دیکھنے کے لیے ٹکٹ خرید لیتی ہے ۔چار پانچ گھنٹے تک چلنے والے سرکس کے شو میں جی بھر کے تماشہ لگایا جاتا ہے اور عوام تالیاں بجا کر اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتی ہے پھر ایکدم اعلان ہوتا ہے کہ شو ختم ہوا تو تمام جانور اور کام کرنے والے پنڈال میں آکر آخری سلامی دے کر رخصت لیتے ہیں ۔عوام ہنسی خوشی سرکس سے نکلتی ہے اور کسی موت کے کنوئیں یا پھر کسی میجک شو کی طرف چل پڑتی ہے۔
ایسا کچھ ہی سیاسی سرکس میں ہوتا ہے ۔ہمارے ہاں کے سیاست دان بھی کسی شعبدہ باز سے کم نہیں ہیں اور عجیب وغریب اعلان کرکے عوام کی توجہ حاصل کرتے ہیں جب عوام کا رش پڑ جاتا ہے تو پھر منتخب ہوکر پانچ سال تک سرکس میں وہ کرتب دکھاتے ہیں کہ عوام بس تالیاں ہی بجاتی رہتی ہے ۔اور اس انتظار میں ہوتی ہے کس وقت پانچ ٹانگوں والا بیل آئے گاکب جل پری نمودار ہوگی۔مگر پچاس لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں کی طرح نا تو بیل سامنے آتا ہے اور نا ہی جل پری دکھائی دیتی ہے اور سرکس میں تماشہ ختم ہوجاتا ہے۔بے چاری عوام اس سرکس سے نکلتی ہے اور میلے کے کسی اور شعبدہ باز کی سرکس کا تماشہ دیکھنے میں مشغول ہوجاتی ہے ۔
یہ ایسے ہی ہے کہ گزشتہ عام انتخابات سے قبل ایک بہت بڑی سرکس لگانے کی تیاری ہوئی اور عوام کو لبھانے کے لیئے کنٹینر سے عجیب وغریب اعلانات ہوتے رہے ۔حکمرانوں کی چوری،مہنگائی ، غربت میں اضافہ ،طبقاتی تقسیم ، مافیاز کی کارستانیوں سے متعلق ہوشربا کہانیاں سنائی جاتی رہیں۔اعلان کیا جاتا رہا کہ مافیاز کو ختم کردیں گے کرپشن سمیت ہر کرپٹ کو سولی پرلٹکا دیں گے ۔ایک ایس فلاحی ریاست بنائیں گے جہاں امیر اور غریب کو یکساں حقوق حاصل ہوں گے ۔استحصالی نظام کی یادگار عمارتوں جن میں وزیراعظم ہاوس اور گورنر ہاوسز شامل ہیں کو تعلیمی اداروں میں بدل دیں گے۔
عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے اعلانات نے سرکس کے باہر وہ رش لگا دیا کہ گویا انقلاب آ گیا ہو۔سادہ لوح یقین کربیٹھے کہ پانچ ٹانگوں والا بیل اورجل پری اس بار دیکھ لیں گے ۔سرکس کے باہر رش بڑھتا گیا مگر اس سب کے باوجود تعداد پوری نہیں ہورہی تھی تو میلے کی انتظامیہ نےمیلے میں دیگر تمام سرکس بند کرادئیے شعبدہ پازوں کو نشان عبرت بنا دیا۔اور یوں من چاہی سرکس کے باہر مطلوبہ تماشائیوں کی تعداد پوری ہوگئی۔پنڈال کچھا کچھ بھر گیا۔اس کے بعد حسب وعدہ تماشہ شروع ہوا۔معیشت کی تنی ہوئی رسی پر سے کئی کرتب دکھانے والے گرے مگر ان کو رسی کے نیچے لگے حفاظی جال جو مخصوص دوستوں نے لگایا ہوا تھا نے بچا لیا۔تماشائی حوصلہ افزائی کی خاطر تالیاں بجاتے رہے
مگر اس تنی ہوئی معاشی رسی پر کوئی نا چل سکا۔عوام میں اضطراب بڑھنے لگا پنڈال میں آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئیں کہ کن اناڑیوں کو سرکس میں لے آئے ہو ان سے تو ایک کام بھی ٹھیک سے نہیں ہورہا۔تماشہ کرنے والے بھی پریشان ہیں کہ رنگ نہیں جم رہا۔تماشائی مطمئن نہیں ہورہے۔ہاتھی ، شیر اور گھوڑے کوئی بھی رنگ ماسٹر کی ہدایات نہیں مان رہے اور ہر کرتب جگ ہنسائی کا سبب بن رہا ہے۔سرکس کا متعین کردہ شو کا وقت گذرتا جارہا ہے۔اور سرکس کے شعبدہ بازوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں ۔میلے اور سرکس کے منتظمین بھی سرکس کے شعبدہ بازوں سے خفا ہیں کہ وہ ٹھیک پرفارم نہیں کررہے جس کے نتیجے میں تماشائیوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔
اور یہ خفگی کسی حد تک جائز بھی ہے کہ ہرپانچ سال بعد میلہ لگتا ہے اگر اس بار تماشائیوں کا اعتبار اٹھ گیا اور یہ سرکس پٹ گیا تو اگلے میلے میں باوجود اعلانات کے وہ سرکس کی طرف نہیں آئیں گے بلکہ ڈر ہے کہ وہ کسی اور سرکس کی طرف نا رجوع کرلیں اگر ایسا ہوگیا تو اس سے کمپنی کو نقصان ہوگا سرکس بند کرنا پڑجائے گا۔بات محض مرضی کے سرکس کی کامیابی یا ناکامی کی نہیں ہے بلکہ خوف اس بات کا ہے کہ کہیں تماشائی اپنی مرضی کے فیصلے نا کرنا شروع کردیں۔
اگر ایسا ہوا تو یہ مستقبل کے لیے ایک بری بات ہوگی کیونکہ تماشائی اگر خود فیصلے کرنے لگ گئے تو بہرحال وہ کسی ایسی سرکس کا انتخاب ضرور کریں گے جہاں کے مداری اور شعبدہ بازوں کو کچھ نا کچھ ضرور آتا ہوگا۔وہ سرکس بہت اچھی نا سہی مگر موجودہ سرکس سے تو بدرجا بہتر ہوگی۔اسی خوف سے منتظمین کا غصہ بڑھ رہا ہے ۔سنا ہے تنی ہوئ رسی کے نیچے لگا حفاظی جال بھی اتار لیا گیا ہے۔اب صورتحال اس قدر دلچسپ ہے کہ تماشہ کرنے والے ، تماشائی اور تماشہ کرانے والے یکساں پریشان ہیں۔وقت تیزی سے گذررہا ہے شو ختم ہونے میں کچھ وقت بچا ہے تو کیا کوئی شعبدہ باز تماشائیوں کو تفریح مہیا کرسکے گا۔بظاہر تو اس کا جواب یہی ہے کہ نہیں ایسا کوئی شعبدہ باز باقی نہیں ہے ۔توپھر سرکس کا آخر آئیٹم باقی بچا ہے اور وہ یہ کہ پانچ ٹانگوں والا بیل اورجل پری تماشائیوں کے سامنے لائی جائے۔اگر یہ بھی جھوٹ تھا تو وقت اور پیسے کے ضیاع پر شعبدہ بازتماشائیوں کے غصے کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔
تحریر:ملک سراج احمد