جدید دور کے تعلیمی تقاضے
آج میں دیکھتا ہوں کہ یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد میں بیروزگاری کی زندگی بسر کرنے لگا. میں اکثر سوچتا کہ آخر کوئی تو وجہ ہونی چاہیے کہ ایک بندہ سکول سے کالج، کالج سے یونیورسٹی کا سفر کرتا ہے. ایک سبجیکٹ میں ماسٹر کرلیتا ہے مگر کمانے کے قابل نہیں ہے.
چلو اس کو چھوڑو آؤ یہ دیکھتے ہیں کہ ہماری یونیورسٹیاں کیا پیدا کررہی ہیں. پروفیسرز، بیرسٹرز ،انجینئرز. یا بیروزگار؟
آف کورس بیروزگار پیدا کررہی ہیں. بیروزگاری عام ہے. تو اس سطح پر دیکھیں کہ کیا طلباء کو جو ہم مہیا کر رہے ہیں اس سے ان کو فائدہ ہو گا.
پرانے زمانے کے بندے کو آج کے دور میں لے آئیں. چالیس، پچاس سال پہلے وفات پا جانے والے فرد کو آج کے زمانے میں لایا جائے تو وہ کبھی یقین نہیں کرے گا کہ یہ وہی دنیا ہے جس میں وہ زندہ تھا مگر اس کو آج کے کلاس روم لے جایا جائے تو وہ مان جائے گا کہ ہاں یہ وہی دور ہے یہ وہی جگہ ہے یہ وہی زمانہ….. کیسے وہ ایسے کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک پیاسا کوا تھا…… بخدمت جناب ہیڈ ماسٹر صاحب.
آج کے دور کا کوا تک بدل گیا ہے. وہ پائپ سے پانی پیتا ہے مگر ہمارا نصاب ہماری تعلیم ہمارا نظام آج بھی اسی کوے کے پیچھے پڑا ہوا ہے.
آج دنیا گلوبل ویلیج سے ایور چینچنگ ورلڈ بن چکی ہے. جتنی تبدیلی پچھلے سو سال میں رونما ہوئی ہے کیا آپ جانتے ہیں کہ اتنی تبدیلی بلکہ اس سے زیادہ تبدیلی پچھلے دس سال میں ہوئی ہے. جس طرح دنیا تبدیل ہو رہی ہے کیا اس طرح ہمارا تعلیمی نظام تبدیل ہو رہا ہے؟
نہیں تو پھر ہم جس جنریشن کو تیار کررہے ہیں وہ جنریشن سروائیو کر پائے گی. قطعی طور پر نہیں. آج دنیا اتنی کررہی ہے کہ برین انفارمیشن ٹیکنالوجی آرہی ہے. ایک دماغ کی انفارمیشن دوسرے دماغ میں منتقل کی جا سکے گی. مطلب ایک ڈاکٹر کا دماغ، ایک انجینئر کا دماغ، ہر طرح کے دماغ کی انفارمیشن کو دوسرے دماغ میں منتقل کیا جائے گا تو کیا ہم ایسے دور کے لئے خود کو تیار کررہے ہیں. آج روبوٹک دنیا آرہی ہے. آج ڈاکٹر روبوٹ تیار ہو رہے ہیں انجینئر روبوٹ تیار ہو رہے ہیں اور ہم کیا کر رہے ہیں. کچھ بھی نہیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے وہی گھسا پٹا نظام لے کر چل رہے ہیں.
آج ایک نجی ادارے کے سائنس ٹیچرز کو دیکھا جن کو SLO کو کا پتہ تک نہیں تھا اگرچہ کہ شاید پتہ ہو یہ ٹرم پہلی بار سنی ہو.
پچھلے سال 10 فیصد SLO طرز کا پیپر آیا تو گورنمنٹ سیکٹر ہو یا پرائیویٹ سیکٹر دونوں کا رزلٹ نیچے گیا. اب اگر پچاس فیصد کردیا گیا تو سوچیں پھر کیا ہوگا. خیر یہ بات تو خوش آئند ہے کہ اس سے سویرے کی امید رہے گی. کم از کم طلباء سائنس پڑھنے کے ساتھ سائنس سیکھ بھی پائیں گے.
اقوام کی تقدیر بدلنے والے اساتذہ ہی ہوتے ہیں کیونکہ وہ اساتذہ ہی ہیں جنھوں نے قوم کا مستقبل بنانا ہوتا ہے. ایک ڈاکٹر کی غلطی سے انسان کی جان جاتی ہے وکیل کی غلطی مؤکل جاتا ہے مگر استاد کی غلطی سے قوم جاتی ہے. استاد کو منٹور ہونا ہوتا ہے سپیکر ہونا ہوتا ہے نفسیات دان ہوتا ہے. کیونکہ اس نے ایک گروہ کو علم مہیا کرنا ہے اور خاص کر سائنس ٹیچرز جنھوں نے سائنس کے نالج کو آگے تجرباتی سطح پر بھی لانا ہوتا ہے وہ کیسے ایک گروپ کو ساتھ لے کر جا سکتا ہے جو چالیس بندوں میں کچھ طلباء ہوں گے جن میں فاسٹ لرنر بھی ہوں گے سلو لرنر بھی ہوں گے. مڈ یارکر بھی ہوں گے رٹے والے بھی ہوں گے کانسپٹ مانگنے والے بھی ہوں گے تو ان سب کو ساتھ لے کر چلنے والے کو بھی تو ملٹی پل خصوصیات کا حامل ہونا ہو گا.
روبرٹ فرسٹ نے کہا تھا تعلیم نام ہے ہر شے کو خود اعتمادی کو گوائے بغیر سب کچھ سننے کا.
ہم دیکھتے ہیں کہ تعلیم دینے کے لئے ضروری جو امر ہے وہ یہی ہے کہ کوئی ایسا طریقہ اپنایا جائے کہ بچے سیکھنے میں مہارت حاصل کریں. مزید آئندہ کالم میں اس موضوع پر لکھوں گا.
تحریر :آفتاب سکندر
Aftab sikendar