تحریر : عبدالصمد
اردو قالب : قیصر نذیر خاورؔ
وہ کافی عرصے سے فیصلہ لینے سے ہچکچا رہا تھا لیکن آج جب سلطان کام کے لیے گیا ہے تو رمضان علی اپنی چھاتی پر پھیلی لمبی داڑھی ، کو پیار سے سہلاتا ہے، آہ بھرتا ہے اور بالآخر فیصلہ کر لیتا ہے ۔
رمضان کھڑے ہونے کی خاطر اپنے گھٹنوں سے مدد لیتا ہے ، ان پر ہاتھ رکھ کر وزن ڈالتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اٹھتا ہے ۔ وہ سُست قدموں سے چلتا حجام کی دکان کی طرف بڑھتا ہے ۔ وہ اداس ہے ۔ اس کے چہرے پر ایک ایسے آدمی کے تاثرات ہیں جو جلد ہی اپنی کوئی ایسی قیمتی شے کھونے والا ہے جس سے اسے بہت زیادہ محبت ہے ۔
” آہوک ، بوہوک ( آﺅ ، بیٹھو ) ۔“ ، جیسے ہی رمضان حجام کی دکان میں داخل ہوتا ہے ، سیبپو جان کی مصروفیت کا آغاز ہو جاتا ہے ۔ آخر وہ اِس دن ،اُس کا پہلا گاہک ہے !ظاہر ہے ، اس کے چہرے پر رونق آ جاتی ہے ۔ ” کیا آپ بال کٹوانا چاہتے ہو ؟“
رمضان اس کے سوال کا جواب نہیں دیتا ۔ وہ بہت پس و پیش اور ہچکچاہٹ کے ساتھ خاموشی سے کرسی پر بیٹھ جاتا ہے ۔ وہ یہاں آنا ہی نہیں چاہتا تھا ۔ اس کے سامنے ایک بڑا آئینہ ہے اور اس آئینے کے پیچھے ۔۔۔ وہ حیران ہو جاتا ہے ۔ کیا آئینے میں سچ میں اس کا اپنا ہی عکس ہے ؟رمضان علی کا عکس ؟کیا یہ مولوی سکندر کے سب سے بڑے بیٹے رمضان علی کا عکس ہے ؟
اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔ یہ تو کوئی ایسا شخص ہے جس کا جسم شکست و ریخت کا شکار ہے ۔
اس کے سرکے بال ہر طرف کھڑے یوں ہو جاتے ہیں جیسے گیندے کی جھاڑی ہوں ۔ ان میں سے زیادہ تر سلیٹی رنگ کے ہو چکے ہیں ۔ اس کے بال خاصے گندے ہونے کے ساتھ ساتھ ابتر حالت میں ہیں اور اس کی آنکھیں ایک ایسے بندے کی آنکھیں لگ رہی ہیں جو ایک لمبے عرصے سے بیمار ہو ۔ ’ کیا آئینے میں یہ میرا ہی عکس ہے ؟ ‘
وہ ایک لمحے کے لیے خوفزدہ ہو جاتا ہے ، پھر وہ یہ مان لیتا ہے کہ جو عکس وہ دیکھ رہا ہے وہ اسی کا ہے اور آئینے میں نظر آنے والا بندہ وہ خود ہی ہے ۔ بالکل ٹھیک ، آئینے کے عکس والا بندہ وہ خود ہی ہے ۔
وہ یہاں آنے سے پہلے بھی اداس تھا لیکن اب وہ اور بھی زیادہ اداس ہو گیا ہے ۔
پچھلی بار ایسا کب ہوا تھا کہ وہ اس طرح کے بڑے آئینے کے سامنے ہوا تھا ؟ کتنے سال پہلے ؟ شاید تین سال پہلے ؟
ٹھیک ، ایسا شاید اتنا عرصہ پہلے ہی ہوا تھا ۔
وہ تین سال پہلے آخری بار حجام کے پاس گیا تھا ۔ تین سال پہلے تک وہ حجام کے پاس بال کٹوانے اور داڑھی کی تراش خراش کرانے جایا کرتا تھا جیسا کہ وہ اب نائی کے پاس آیا تھا ۔ وہ تب آئینے پر اپنی نظریں جما کر خود کو دیکھتا ، وہ اس وقت گہری رنگت والا ایک آدمی تھا اور اس کی داڑھی و بال بھی کالے تھے ۔
” کیا آپ حجامت کروانا چاہتے ہو ؟“ ، سیبپوجان اپنا سوال دہراتا ہے ۔ اس نے اپنی بڑی ریشمی چادر نکال لی ہے جو وہ بال کاٹنے سے پہلے اپنے گاہگ کے گرد لپیٹتا ہے ۔ وہ قینچی اور کنگھے بھی نکالتا ہے اور ان سے اپنے ماتھے کو چھوتا ہے ۔ وہ خاموشی اور دل سے پراتھنا کرتا ہے کہ اس دن ، اس کادھندہ اچھی کمائی لائے اور پھر وہ رمضان کی کرسی کے پاس کھڑا ہو جاتا ہے ۔
” نہیں ۔“
” تو پھر ؟“
” داڑھی ۔ میں داڑھی مونڈوانا چاہتا ہوں ۔“
” ہیں ۔۔۔ارے ؟!“ ، سیبپوجان حیران ہو جاتا ہے ۔ ’ یہ بندہ کیا کہہ رہا ہے !کیا یہ واقعی اپنی داڑھی صاف کروانا چاہتا ہے ؟‘
اسے حیران نہیں ہونا چاہیے ۔ اس کا تو پیشہ ہی یہی ہے ۔ وہ روز ہی بہت سے لوگوں کی داڑھی مونڈتا یا اس کے بال مختصر کرتا ہے ۔ یہ چاہے ہندو ہوں یا مسلمان ، اس کے لیے سب برابر ہیں ۔ اب البتہ رمضان نے جب اس سے ، اس کی داڑھی صاف کرنے کو کہا ہے تو اس پر بھی اداسی کی کیفیت چھا جاتی ہے ۔ اسے پہلے کبھی اِس کیفیت سے دوچار نہیں ہونا پڑا تھا جب کبھی اُس کے کسی گاہک نے اسے ایسا ہی کرنے کو بولا تھا ۔ اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کی دکان پر اب تک کبھی بھی کوئی ایسا بندہ نہیں آیا تھا جس کی لمبی داڑھی اس کی چھاتی سے بھی نیچے تک پھیلی ہو ۔
سیبپوجان جب کبھی بھی کسی مسلمان بندے کی داڑھی کے بارے میں سوچتا تو اسے اپنے سر کی پشت پر موجود بودی کا خیال آتا ہے ۔ اسے یہ تو معلوم نہیں کہ داڑھی کی مذہبی یا ثقافتی اہمیت کیا ہے لیکن اسے یہ یقیناً پتہ ہے کہ جس طرح اس کے اپنے سر کی پشت پر موجود بالوں کی لَٹ کے ساتھ مذہبی جذبات جڑے ہیں ، داڑھی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی منسلک ہوتا ہے ۔ اس نے گو ، کبھی اس بارے میں تفصیل سے جاننے کی کوشش نہیں کی ، اس کے پاس اس کی فرصت ہی کہاں ہے ۔
وہ اپنی چُٹیا کو چھوتا ہے اور دل ہی دل میں کہتا ہے : ’ کیا یہ بُری بات نہیں کہ میں اِسے مونڈ ڈالوں اور کیا یہی احساس مجھے تب نہیں ہوگا جب میں اس بندے کی داڑھی صاف کروں گا ۔؟‘
وہ کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح یہ جان لے کہ رمضان کیا سوچ رہا ہے ۔ ’ شاید یہ بندہ داڑھی مونڈوانے کو برا نہیں سمجھتا ۔ شاید یہ بندہ اسی میں راضی ہو اور داڑھی مونڈوانے میں ہی سہولت تلاش کر رہا ہو ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ یہاں آتا ہی کیوں ؟‘
سیبپوجان رمضان کے پاس سے ہٹتا ہے اور الماری کے پاس جاتا ہے ۔ وہ ریشمی چادر واپس رکھتا ہے اور ایک تولیہ اور باہر نکالتا ہے جو وہ ان گاہکوں کے سینے پر پھیلاتا ہے جنہوں نے داڑھی مونڈوانی یا صاف کرانی ہو ۔ وہ جب اسے رمضان کی گردن کے گرد لپیٹتا ہے تو اسے داڑھی کی لمبائی کا اندازہ ہوتا ہے ۔’ یہ واقعی میں ایک لمبی داڑھی ہے ! اسے ایک لمبے عرصے سے پروان چڑھایا گیا ہے اور اس کی حفاظت کی گئی ہے ۔۔۔ یہ تو چھاتی سے بھی نیچے تک پھیلی ہے ۔‘
سیبپوجان جو کسی بندے کے سر کے بالوں کی ایک لَٹ تھام کر یہ بتا سکتا ہے کہ ان بالوں کوکتنی دیر پہلے کاٹا گیا تھا ، دل میں کہتا ہے : ’یہ داڑھی تب سے ہے جب یہ بندہ جوان تھا ۔‘
’یہ اسے کیوں صاف کروانا چاہتا ہے ؟ اس کے بال ابھی صحت مند ہیں اور یہ بندہ اس لمبی داڑھی کے ساتھ خوبرو بھی لگتا ہے ۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اسے باقاعدگی سے تیل نہیں لگایا گیا اور نہ ہی کنگھا کرکے سنوارا گیا ہے لیکن یہ پھر بھی قدرتی طور پر گھنی اور تندرست ہے ۔ اس عمر میں تو ایک لمبی داڑھی بندے کی شخصیت کو نکھارتی ہے اور وہ دیکھنے میں اچھا لگتا ہے ۔۔۔ لیکن مجھے اس کی چِنتا کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ مجھے اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے ۔‘ یہ سب سوچنے کے باوجود سیبپوجان خود کو توصیفی جملہ کہنے سے روک نہیں پاتا :
” بابو آپ کی داڑھی کبھی بہت خوبصورت رہی ہو گی ۔“
رمضان خاموشی سے سرد آہ بھرتا ہے ۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ اس کی داڑھی کے بارے میں کسی نے تعریف کی ہو ۔ وہ بہت سے لوگوں سے اس کی توصیف سن چکا ہے ، لیکن آج کے بعد وہ یہ تعریف و توصیف نہیں سن پائے گا ۔
” اب سے تم داڑھی مت مونڈا کرو ۔ تمہیں پتہ ہے ، یہ تم پر سجتی ہے اور ہر کوئی اتنا خوش قسمت نہیں ہوتا کہ اسے اتنی گھنی داڑھی نصیب ہو ۔“ اس کے دوست قادر نے کہا ۔
تب اس کی داڑھی نئی نئی نکلی تھی ۔ اس نے اسے کچھ بار ہی صاف کیا تھا ۔ تب وہ دونوں نوجوان تھے ۔ چہرے پر نئے نئے بال آئے تھے اور بازار میں بلیڈ بھی نئے نئے آئے تھے ۔ وہ صبح سویرے شیو کرتا تھا لیکن شام پڑنے تک اس کے چہرے پر ایک پتلا سرمئی جھاڑ ایسے اُگ آتا جیسے ’ آہو ‘ دھان کی پنیری جڑی بوٹیوں کی تلفی کے بعد تیزی سے بڑھتی ہے ۔ رمضان کے چہرے کی جلد تب روشن اور قدرے ہلکے رنگ کی تھی اور کالی گھنی داڑھی اس پر ایک خوبصورت انتر پیش کرتی تھی ۔
قادر پہلا تھا جس نے اس کی داڑھی کی تعریف کی لیکن وہ آخری نہیں تھا ۔ ادریس بھی اس کا ہم خیال تھا :
” تمہیں اسے رکھنا چاہیے ۔ تم اس کے ساتھ اچھے لگتے ہو ۔“
گھانسلیٹ والے لیمپ کی روشنی کمرے میں کچھ زیادہ نہ تھی پھر بھی اُس رات رمضان نے چھوٹے گول آئینے میں اپنے چہرے کو دیکھا اور اُسے داڑھی والا اپنا چہرہ اچھا لگا تھا ۔ اس نے اپنے چہرے اور داڑھی کا معائنہ کرنے کے بعد ادریس اور قادر سے کی رائے سے اتفاق کیا اور پھر داڑھی بڑھانے کا فیصلہ کر لیا ۔ اپنے فیصلے پر قائم رہنے کے لیے ، اس نے مٹی کے لیپ والے پھولے پٹ سن سے بنی دیوار کی درزوں میں رکھے بلیڈ اٹھائے اور کچرے میں پھینک دئیے تاکہ جب کبھی اسے داڑھی صاف کرنے کا خیال آئے بھی تو فوری طور پر بلیڈ موجود ہی نہ ہوں ۔
کچھ ہی دنوں میں داڑھی نے اس کے چہرے کو خوبصورتی سے ڈھانپ لیا اور آہستہ آہستہ ، جیسے ’ کاش‘ گھاس کے پھولوں کا رُواں ہوتا ہے ، یہ بڑھتی چلی گئی اور چھاتی تک پہنچنے لگی ۔ اس کے مولوی والد بیٹے کو صبح شام دیکھتے تھے ، انہیں بھی اس کی داڑھی پسند آئی ۔ ایک روز انہوں نے بھی اس کی حوصلہ افزائی کی :
” بیٹا اپنی داڑھی اب کبھی صاف نہ کرنا ۔ یہ تم پر جچتی ہے ۔ لمبی داڑھی رکھنا ویسے بھی ایک احسن فعل ہے ۔“
جس طرح سونا پالش کرنے پر ہی چمکتا اور لِشک دیتا ہے ، رمضان کی داڑھی کی خوبصورتی کو باپ اور دوستوں کی حمایت حاصل ہوئی تو یہ اسے اور بھی اچھی لگنے لگی ۔ تب سے رمضان نے اسے صاف کرانے کے بارے میں بالکل نہ سوچا ۔
لیکن ۔۔۔ ایسا نہ تھا کہ اس کی داڑھی سب کو پسند تھی ۔ اس کی شادی ہوئی تو کچھ روز کے بعد ہی اس کی بیوی ، روہیما ، جس کے جسم سے ابھی ہلدی اور ابٹن کی مہک بھی ختم نہ ہوئی تھی اور وہ اس کے ساتھ لگ کر بیٹھی تھی ، نے اس سے کہا :
” تم ابھی جوان ہو ، تم نے یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے ؟ تم بوڑھے لگتے ہو ۔ میری مانو تو اپنی داڑھی صاف کر ڈالو ۔“
رمضان نے فورا ہی اسے الگ کیا اور فرش پر کھڑے ہو کر غصے سے کہا :
” خبردار! آئندہ سے ایسی بات مت کرنا ۔ میں تمہیں تنبیہ کرتا ہوں ، ایسا پھر نہ کہنا ورنہ گھر میں فساد کھڑا ہو جائے گا ۔“
روہیما حیران ہو گئی ۔ وہ اس تیز غصے والے ردِعمل کے لیے تیار نہ تھی ۔ اس نے کبھی سوچا ہی نہ تھا کہ رمضان اس بات پر یوں آگ بگولا ہو جائے گا ۔ وقت بیتتا گیا ۔۔۔ رمضان کی داڑھی اس کی شناخت بنتی گئی اور جسم کا حصہ بھی ، جیسے اس کی ٹانگیں ، ہاتھ اور دیگر اعضا ء تھے ۔ اس کے لیے ٹانگ کٹنے یا داڑھی صاف کرنے میں کوئی فرق نہ رہا تھا ۔
سیبپوجان جب اس کے ایک گال کے کونے پر استرا رکھ کر دباتا اور نیچے کی طرف کھینچتا ہے تو رمضان کو سخت دُکھ ہوتا ہے ۔ وہ اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے ۔ ایسا صرف اب ہی نہیں ہوا ہے ۔ رمضان علی تب بھی اپنی آنکھیں بند کر لیتا تھا جب بکر عید پر مُلا تیز دھار والی چھری گائے کی گردن پر رکھتا ۔ اسے لگتا ہے کہ آج اس کے گال پر بھی تیز دھار والی چھری رکھی گئی ہے ۔
’ نہیں ، میں دل چیر دینے والا یہ منظر نہیں دیکھ سکتا ۔‘
تین سال پہلے جب ساون کے مہینے میں دریائے برہم پُتر اچانک جوش میں آیا اور اس نے ‘ بیرنیباری ‘ کے سارے گاﺅں کو چٹ کر لیا تھا تو رمضان تب بھی یہ منظر نہیں دیکھ سکا تھا ۔
یہ ایک خوفناک اور ناقابل یقین نظارہ تھا ۔
پاگل ہوئے بپھرے دریا اور اس کے کنارے کے سامنے ، وہ بڑا گاﺅں جس میں وہ نسلوں سے رہتے چلے آئے تھے ، ایسے لگ رہا تھا جیسے خشک بھوسے سے بنا ہو ۔ جیسے ہی پانی نے دریا کے کنارے توڑے ، کیچڑ کا ایک سیلاب اس گائوں پر چھایا اور اُس مٹی کو بھی ساتھ بہا لے گیا جس پر یہ گاﺅں قائم تھا ۔ بیرنیباری کے سارے مکین اس دل ہلا دینے والے منظر کو دیکھ رہے تھے ۔ آس پاس کے دیہاتوں کے لوگ بھی اس گاﺅں کو دریا برد ہوتے دیکھ کر تاسف سے توبہ توبہ کرنے لگے ۔
قادر کے والد ، جبار۔بُرہا نے زور زور سے روتے ہوئے ماتھا پیٹنا شروع کر دیا تھا ۔ اس نے ٹوٹتے پھوٹتے کنارے ، جس پر گاﺅں آباد تھا ، کو نیچے دھنستے دیکھا تو وہ چلایا :
” دیکھو ، لوگو دیکھو ۔۔۔ گاﺅں کیسے نیست و نابود ہو رہا ہے ! یہ برہم پُتر دریا کی لہر نہیں یہ تو چاقو کی تیز دھار ہے جس نے سب کچھ کاٹ کر رکھ دیا ہے ۔۔۔ یہ تیز چاقو سارے گاﺅں کی مٹی کو ایسے کاٹے چلا جا رہا ہے جیسے یہ ایک نرم لوکی ہو ۔“
نو دن ۔۔۔ صرف نو دنوں میں دریا نے سارے گاﺅں کو ہمیشہ کے لیے نگل لیا تھا ۔۔۔ وہ گاﺅں جو جبار۔بُرہا ، قادر ، ادریس اور رمضان کا تھا ۔ ہر شے تباہ ہونے کے بعد گاﺅں کے لوگ دریائے برہم پُتر کے ساتھ ساتھ بنے پشتے پر اونچے علاقوں کی طرف ہجرت کر گئے تھے ۔
رمضان کو جب بھی یہ نو دن یاد آتے ہیں تو اس کا دل یوں بھاری ہو جاتا ہے کہ اسے اپنی چھاتی یوں پھٹتی محسوس ہوتی ہے جیسے یہ ایک ایسا غبارہ ہو جس میں زیادہ ہوا بھر دی گئی ہو ۔ ان نو دِنوں نے رمضان اور اس کے ساتھی دیہاتیوں کی دنیا بدل کر رکھ دی تھی ۔ رمضان ، اس کا مولوی والد ، اس کی بیوی روہیما اور اس کے تین بچے ۔۔۔ ان کے پاس ماضی میں بہت کچھ تھا : چودہ بیگھے زمین ، دو گائیں ، دو بیل ، ڈیڑھ بیگھہ زمین پر مٹی کے لیپ ، سرکنڈوں اور بانسوں سے بنے چار گھر ۔ اس مال و متاع کے ساتھ وہ ہنسی خوشی اور امن سے اپنے گاﺅں میں آباد تھے ، کبھی کوئی مشکل یا تنگی آتی بھی تو وہ شاکر رہتے ہوئے اِسے کاٹ لیتے ۔ رمضان ابھی جوان ہی تھا جب اس کی ماں فوت ہو گئی تھی ۔۔۔ لیکن اب یہ سب یادیں بن چکی تھیں ۔
رمضان نے آہ بھری ۔
وہ پھٹے پرانے پولیتھین اور پٹ سن کی بوریوں سے بنائے جھونپڑے کے باہر بیٹھا تھا ۔ یہ جھونپڑا پشتے پر بنا تھا ۔ ماضی میں اس پر کبھی کبھار مشکل وقت پڑا تھا لیکن اب تو اسے ہر شے کے فقدان ، مشکلات ، غمی اور بھوک کا سامنا تھا ۔ جھونپڑے میں اُس کا چھوٹا بچہ رو رہا تھا ۔ وہ بھوکا تھا ۔ شام ہونے کو تھی لیکن اسے کوئی کام نہ ملا تھا اور اس کے پاس اشیاء خوردو نوش خریدنے کے لیے پیسے بھی نہیں تھے ۔
’ اگر مجھے کل بھی کوئی کام نہ ملا اور میں پیسے نہ کما سکا تو ۔۔۔ ! میں بچوں کو کھانا کیسے مہیا کروں گا۔ ‘ ، وہ اس سے آگے اور کچھ نہ سوچ سکا ۔ وہ اس سے آگے سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا ۔ دو ماہ پہلے ، پشتے پر بنے اسی جھونپڑے میں اس کے والد فاقوں کی وجہ سے فوت ہو گئے تھے ۔۔۔ نہیں ، اصل میں ہوا یہ تھا کہ انہوں نے دو دن کے فاقے کے بعد جنگلی شکرقندی کھا لی تھی جو انہیں ٹھیک سے ہضم نہ ہوئی ۔ معدے اور شکرقندی میں جنگ چھڑ گئی ۔ ساری رات ان کے پیٹ سے ’ گھڑوم گھڑوم ‘ کی آوازیں آتی رہیں اور وہ لوٹا تھامے پشتے سے نیچے دریا پر جاتے رہے ۔۔۔ اور پھر سب کچھ ختم ہو گیا ۔
بچے نے پھر سے رونا شروع کر دیا تھا ، وہ کھانا مانگ رہا تھا ۔
پگڈنڈی پر کچھ دور سے ایک گانے کی آواز آ رہی تھی :
”موکالا ، مقابلہ لیلیٰ ہو لیلیٰ ۔۔۔“ ،
یہ سلطان کی آواز تھی ۔ وہی اس طرح کے گندے اور بیہودہ گانے گوہاٹی سے ساتھ لاتا تھا ۔ وہ وہاں سے ایک روز پہلے ہی لوٹا تھا ۔ اس نے اگلے روز واپس جانا تھا ۔ اسے لگ بھگ سال ہو گیا تھا اور وہ ایک راج کے ساتھ بطور مزدور کام کرتا تھا ۔ اس کے خاندان کا گزارا چل رہا تھا ۔
” چاچا “ ، سلطان نے رمضان سے ایک رات پہلے کہا تھا :
” کیا آپ میرے ساتھ گوہاٹی جانا چاہو گے ؟ میں کوشش کروں گا کہ آپ کو وہاں کوئی کام مل جائے ۔“
” نہیں بیٹا ، میں کہیں نہیں جا رہا ۔ میں اپنوں میں یہیں فاقوں سے مرنا پسند کروں گا ۔“ ، رمضان نے اسے جواب دیا ۔
لیکن ۔۔۔یہ آخری رات تھی ۔
رمضان کھڑا ہوا اورایک سحرزدہ بندے کی طرح ، وہ اس طرف بڑھنے لگا جس طرف سے سلطان کے گانے کی آواز آ رہی تھی :
” مقابلہ سبحان اللہ لیلیٰ ہو لیلیٰ ۔۔۔“
رمضان کو گوہاٹی آئے چھ روز ہو گئے تھے ۔ وہ سلطان اور اس کے دوستوں کے ساتھ ’سیجوباری ‘ میں اُن کی کھولی میں رہنے لگا ۔ وہ روز صبح کے وقت تھوڑا بہت کھانا زہر مار کرتا اور ان کے ہمراہ ’ ہٹی گاﺅں چاریالی‘ جاتا ۔ ساڑھے سات یا آٹھ بجے تک وہاں سلطان اور رمضان جیسے ہزاروں دیہاڑی داروں کا ہجوم اکٹھا ہو جاتا ۔ منڈی میں جیسے گائے بھینسوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے ، بالکل ویسے ہی وہاں اِن مزدوروں کا بھاﺅ تاﺅ ہوتا رہتا ۔
رمضان کو پہلے دن ہی کام مل گیا تھا ۔ بورا ٹھیکیدار نے سلطان کے ساتھ اسے بھی ٹرک پر چڑھا لیا تھا لیکن نئے ٹھیکیدار نے اسے نفرت بھری نظروں سے دیکھا اور مذاق اڑاتے ہوئے سلطان سے بولا ؛
” سنو ، اس بندے کو ساتھ مت لو ، یہ کام کرے گا یا اپنی داڑھی سنبھالے گا ۔“
سلطان نے رمضان کا ہاتھ تھام رکھا تھا اور وہ اس کی مدد سے ٹرک پر چڑھنے والا ہی تھا کہ یہ سن کر اس نے اپنا ہاتھ چھڑایا اور پیچھے ہٹ گیا ۔
چوٹ کھائے دل کے ساتھ وہ سلطان کی کھولی میں واپس چلا گیا ۔ کھولی میں اُسے اپنے چھوٹے بیٹے کے رونے کی آواز تنگ کرنے لگی اور وہ اداس ہو گیا ۔ اسے پہلی بار احساس ہوا کہ اس کی لمبی اور خوبصورت داڑھی ، جس پر اسے ناز تھا ، اس کی روزی روٹی کی راہ میں رکاوٹ بن گئی تھی ۔
رمضان کو اگلے روز بھی کام نہ ملا ۔ جب سلطان ٹھیکیدار سائیکیا کے ساتھ جانے لگا تو اس نے سلطان کو ایک طرف لے جاتے ہوئے ہولے سے کہا :
” اس بندے کو کام کے لیے ساتھ مت لایا کرو ، یہ ہمارے ساتھ کام نہیں کر سکتا ۔ یہ اچھا نہیں لگتا کہ اتنی لمبی داڑھی والا بندہ ہمارے ساتھ کام کرے ۔“
رمضان نے یہ بات سُن لی تھی ۔
سیبپو جان جب استرا چلانا بند کردیتا ہے تو رمضان اپنی آنکھیں کھولتا ہے اور وہ حیران ہو جاتا ہے :
’ میرے سامنے موجود یہ بندہ کون ہے ؟‘
’ کیا یہ میرا ہی عکس ہے ؟‘
اور جب وہ اپنے عکس کو پہچان لیتا ہے تو اس کے منہ سے ایک اور گہری سرد آہ نکلتی ہے ۔#
( عبدالصمد کے پانچ ناول اور افسانوں کے دو مجموعے شائع ہو چکے ہیں ، یہ اردو و ہندی میں بھی ہیں ۔ انہیں 2006 ء میں ” Munin Borkotoky Award for Assamese literature ” مل چکا ہے ۔ ان کی اس کہانی کو ‘ ارونی کشیپ ‘ نے آسامی زبان سے انگریزی میں ترجمہ کیا ہے ۔ ان کے اور بھی کئی افسانے انگریزی میں ترجمہ ہو چکے ہیں ۔ )
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...