غالبا اس حقیقت کو تو اب بچہ بچہ بھی جانتا ہے کہ ہماری یہ مادی دنیا اور کائنات، ایٹموں اور مالیکیولوں سے بنی ہے۔ یہ ایٹم اور مالیکیول سائز میں بے انتہاء چھوٹے ہوتے ہیں۔ اتنے چھوٹے کہ ہم اسکو اپنی آنکھوں سے براہ راست نہیں دیکھ سکتے۔ اس بات کا اندازہ آپ ایسے لگاسکتے ہیں کہ فرانشیم Francium جسکا ایٹمی نمبر 87 ہوتا ہے، تمام ایٹموں میں سب سے بڑا ایٹمی رداس رکھنے والا اٹیم مانا جاتا ہے (ایٹمی رداس atomic radius سے ہی ہم ایک ایٹم کا سائز معلوم کرتے ہیں) جسکی قیمت محض 0.27 نینو میٹر ہوتی ہے۔ نینو میٹر، ایک میٹر کا قریبا دس اربواں حصہ ہوتا ہے۔ جبکہ ہم جو روشنی دیکھ سکتے ہیں، visible light اسکی طول موج قریبا 380 سے 750 نینو میٹر ہوتی ہے، مطلب دیکھنے والی روشنی سے بھی انتہائی چھوٹے یہ ایٹم ہوتے ہیں۔ اور لازمی طور پر مالیکیول جو دو یا دو سے زیادہ ایٹموں پر مشتمل ہوتے ہیںِ، وہ بھی انتہائی چھوٹے ہوتے ہیں۔ یعنی ہم لاکھ کوشش کرلیں، بغیر کسی مخصوص طریقہ کار کے ان ایٹموں کو براہ راست اپنی آنکھ سے مشاہدہ نہیں کیا جاسکتا۔ حتی کہ دنیا کی طاقتور ترین خورد بین “الیکٹران مائیکرو اسکوپ” بھی انکو دیکھنے سے قاصر ہے۔ لیکن اب ایک انقلابی ایجاد کے سبب، سائنسدان یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ ایٹم کو ایک خورد بین کے زریعے ہم مشاہدہ بھی کرسکتے ہیں اور انکی تصاویر وغیرہ بھی لی جاسکتی ہے۔ نیچے اس سائنسی تجربے کی تفضیلات بتائی گئی ہیں۔
2018 میں ، کارنیل یونیورسٹی کے محققین نے ایک اعلی طاقت والا ڈیٹیکٹر بنایا جس نے ایک الگورتھم سے چلنے والے عمل کے ساتھ مل کر پیٹیوگرافی Ptychography کے نام سے ایک جدید ترین الیکٹران خوردبین کی ریزولوشن کو تین گنا بڑھا کر ایک عالمی ریکارڈ قائم کیا۔
یہ ڈیٹیکٹر جتنا کامیاب تھا ، مائیکرو اسکوپک پارٹیکل کے عکس دیکھنے کی اس نقطہ نظر کی ایک کمزوری تھی۔ اس ڈیٹیکٹر نے صرف انتہائی مہین نمونوں کے ساتھ ہی کام کیا جو کہ چند ایٹم موٹے تھے۔ کوئی بھی موٹی چیز الیکٹران کو ان طریقوں سے بکھیرنے کا سبب بنے گی جنہیں جدا نہیں کیا جا سکتا۔
اب ایک ٹیم نے، ایک بار پھر ڈیوڈ مولر David Muller کی قیادت میں ، سموئیل بی ایکرٹ Samuel B. Eckert پروفیسر آف انجینئرنگ کی نگرانی میں ، الیکٹران مائکروسکوپ پکسل سرے ڈٹیکٹر (ایم پی اے ڈی) کے ساتھ اپنے اپنے ریکارڈ کو پچھلے ریکارڈ سے دوہرا بہتر بنایا ہے جس میں اور بھی جدید ترین تعمیر نو تھری ڈی الگورتھم 3D reconstruction algorithms شامل ہیں
اسطرح حاصل ہونے والی ریزولوشن بہت عمدہ ہے ، صرف ایٹموں کا دھندلاپن باقی ہے جو خود ان ایٹموں کی ہلکی ہلکی حرارتی تھرتھراہٹ کی وجہ سے ہے۔
اس تحقیقی گروپ کے سائنسی پیپر کا عنوان ، “الیکٹران پائیکوگرافی ،ایٹموں کی ریزولوشن کی حد کو حاصل کرتا ہے جو مالیکیولز کے کرسٹل کے جال کی تھرتھراہٹ کے ذریعہ مقرر کیا گیا ہے ،” یہ پیپر حال ہی میں سائنس نامی معقر جریدہ میں 20 مئی 2021 کو شائع ہوا۔ پیپر کے مرکزی مصنف پوسٹ ڈاکٹریٹ ریسرچر ژین چن Zhen Chen ہیں۔
مولر نے کہا ، “یہ صرف ایک نیا ریکارڈ قائم نہیں کرتا ہے۔بلکہ یہ ایک ایسے فوٹوگرافی کے عہد تک پہنچ گیا ہے جو مؤثر طریقے سے کی گئی ریزولوشن کی حتمی حد ہوگی۔اور ہم بنیادی طور جسکی وجہ سے اب یہ آسانی سے جان سکتے ہیں کہ کسی مادے میں ایٹم کہاں رہائش پذیر ہیں۔اس سے ان چیزوں کے نئے پیمائش کے امکانات کھل جاتے ہیں جو ہم بہت عرصے سے کرنا چاہتے تھے۔ اسکے علاوہ یہ ایک دیرینہ مسئلہ بھی حل کرتا ہےجو کسی نمونے میں روشنی کی بیم کے ایک سے زیادہ بکھرنے کو ختم کرنا ، جسے ہنس بیتھے Hans Bethe نے 1928 میں پیش کیا تھا-بکھرنے کے اس عمل نے ہمیں ماضی میں ایسا کرنے سے روک دیا تھا۔”
Ptychography
اسطرح کام کرتی ہے کہ کسی مٹیریل کے نمونے سے روشنی کی بیم کی اوور لیپنگ میں بکھرنے کے نمونوں کو اسکین کرکے اور اوور لیپنگ ریجن میں تبدیلیوں کی تلاش میں یہ کام کرتی ہے۔
مولر نےمزید کہا ، “ہم ان دھبوں کے نمونوں کا پیچھا کر رہے ہیں جو بہت زیادہ ان لیزر پوائنٹر نمونوں کی طرح نظر آتے ہیں جن سے بلیوں کو بھی مسحور کیا جاتا ہے۔” “یہ دیکھ کر کہ لیزر کے بکھرنے کا پیٹرن کیسے بدلتا ہے ، ہم اس شے کی شکل کا حساب لگانے کے قابل ہیں جس کی وجہ سے پیٹرن ہوا ۔ممکنہ اعداد و شمار کی وسیع رینج پر قبضہ کرنے کے لیے ڈٹیکٹر تھوڑا سا ڈی فوکس کیاجاتا ہے ، اور یہ لیزر بیم کو اسطرح دھندلا دیتا ہے۔ اس ڈیٹا کو پھر پیچیدہ الگورتھم کے ذریعے دوبارہ تشکیل دیا جاتا ہے ، جس کے نتیجے میں ایک الٹراپریسائز امیج ہوتی ہے جس میں پیکومیٹر (ایک ٹریلین میٹر) تک کی درستگی پائی جاتی ہے۔”
“ان نئے الگورتھم کے ساتھ ، اب ہم اپنی اس جدید خوردبین کے تمام دھندلے پن کو اس حد تک درست کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ سب سے بڑا دھندلا پن جو ہم نے چھوڑا ہے وہ یہ ہے کہ ایٹم خود ہی ہل رہے ہیں ، کیونکہ محدود درجہ حرارت پر ایٹموں کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔ ، ” کسی بھی مادے کے ایٹم، کبھی بھی پرسکون انداز میں رک نہیں سکتے، بلکہ ان میں ہمہ وقت حرارت اثر کی بنیاد پر حرکت ہوتی رہتی ہے”۔
مولر نے آگے کہا۔ “جب ہم درجہ حرارت کے بارے میں بات کرتے ہیں ، جو ہم اصل میں ناپ رہے ہیں وہ اسطرح سے ہے کہ ایٹم کتنا اور کس رفتار سے ہل رہے ہیں۔اس چیز سے ایک ایٹم کی حرارتی توانائی کی مقدار کا اندازہ لگ جاتا ہے۔ “
محققین ممکنہ طور پر ایسے مواد کا استعمال کرتے ہوئے دوبارہ بہتر سے بہتر نتائج مہیا کریں اگر ایسا مواد بھاری ایٹموں پر مشتمل ہو ، جو کم ہلتا ہو ، یا نمونے کو انتہائی ٹھنڈا کرکے اپنا مطلوبہ رزلٹ نکال سکتے ہیں ۔ لیکن صفر درجہ حرارت پر بھی ، ایٹموں میں اب بھی کوانٹم لیول میں اتار چڑھاؤ ہوتا ہے ، لہذا بہتری بہت بڑی نہیں ہوگی۔
الیکٹران پیٹیوگرافی Electron Ptychography کی یہ تازہ ترین شکل سائنسدانوں کو ان تینوں جہتوں میں انفرادی ایٹموں کو تلاش کرنے کے قابل بنائے گی جب وہ دوسری صورت میں امیجنگ کے دیگر طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے پوشیدہ ہو سکتے ہیں۔ محققین ان ملاوٹ زدہ ایٹموں کو غیر معمولی ترتیب میں ڈھونڈ سکیں گے اور ان کی اور ان کے ارتعاشات کی ایک وقت میں ایک کرکے ایک محتاط تصویر کشی کر سکتے ہیں۔
یہ تصویر کشی خاص طور پرنیم موصل ، عمل انگیز اور کوانٹم مادوں کی ساخت جاننے میں کافی مددگار ثابت ہوسکتی ہے – بشمول کوانٹم کمپیوٹنگ میں استعمال ہونے والی چیزوں کے ساتھ ساتھ ان حدود میں ایٹموں کا تجزیہ کرنے کے لیے جہاں مواد ایک دوسرے کے ساتھ مل جاتے ہیں۔
اسکے علاوہ یہ تصویر کشی کا یہ طریقہ کار زندہ خلیات کے لیے بھی کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔ اسطرح کہ یہ طریقہ موٹی حیاتیاتی خلیوں یا ٹشوز پر بھی لاگو کیا جا سکتا ہے ، یا دماغ میں Synapse کنکشن کو بھی دیکھا جاسکتا ہے ،جسے مولر ” کنیکٹومکس کی مانگ connectomics on demand ” کہتے ہیں۔
اگرچہ یہ طریقہ وقت طلب اور کمپیوٹیشنل طاقت کو مانگنے والا ہے ، پر اسے مشین لرننگ اور تیز ڈٹیکٹر کے ساتھ مل کر زیادہ طاقتور کمپیوٹرز کے ساتھ مزید زیادہ موثر بنایا جا سکتا ہے۔
“ہم اسے اپنے ہر کام پر لاگو کرنا چاہتے ہیں ،” مولر نے کہا ، جو کارنیل میں کاولی انسٹی ٹیوٹ برائے نانوسکل سائنس کے شریک ڈائریکٹر ہیں اور نانو اسکیل سائنس اور مائیکرو سسٹم انجینئرنگ (NEXT nano ) ٹاسک فورس کے شریک چیئرمین ہیں .
“اب تک ، ہم سب نے واقعی خراب عینکیں پہن رکھی تھیں، جن سے کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ اور اب جیسے ہمارے پاس واقعی ایک اچھی عینک کی جوڑی ہے۔ آپ پرانے شیشے اتارنے ، نئے چشمے لگانے اور اب ہر وقت ان کا استعمال کیوں نہیں کرنا چاہیں گے؟
Reference: “Electron ptychography achieves atomic-resolution limits set by lattice vibrations” by Zhen hen, Yi Jiang, Yu-Tsun Shao, Megan E. Holtz, Michal Odstrcil, Manuel Guizar-Sicairos, Isabelle Hanke, Steffen Ganschow, Darrell G. Schlom and David A. Mull, 21 May 2021, Science.
DOI: 10.1126/science.abg2533
ترجمہ، تحقیق اور اضافہ جات : حمیر یوسف
اوریجنل آرٹیکل لنک
https://scitechdaily.com/incredible-microscope-sees-atoms-at-record-resolution/?fbclid=IwAR1nXMQndbAEP6Q0VeaizW7rJHKIEqCt9dHo20kDcosAdeGSEGXRCN3YyOc
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...